انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے غائب ہونے کی شکایت اکثر ملتی ہے۔ اس لیے مسلم تنظیمیں و سماجی کارکنان اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ووٹر فہرست میں نام شامل کروانے کی مہم چلاتے تھے۔ تاہم اس مرتبہ بہار اسمبلی انتخابات سے قبل بیداری مہم نہیں چلائی گئی ہے۔ تنظیمیں اور سماجی کارکنان خاموش ہیں حالانکہ شہر گیا کے کچھ محلوں میں نام شامل کروانے کی مہم جاری ہے اور اسکے لیے مسجدوں سے اعلان بھی کرایا گیا ہے۔
اس سلسلے میں گیا کے فعال سماجی کارکن و جماعت اسلامی کے سابق سکریٹری پروفیسر بدیع الزماں نے کہا کہ جس شدت کے ساتھ مہم چلائی جاتی تھی وہ رواں برس دیکھنے کو نہیں ملا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ شہر گیا کے سب سے بڑے مسلم محلوں میں شمار کریم و نیو کریم گنج میں وارڈ کونسلر کی طرف سے مہم چلائی گئی ہے، مسجدوں سے اعلان کروایا گیا ہے، اگر نام نہیں ہوگا تو ووٹ سے لوگ محروم ہو جائیں گے اور جنہیں ہم حکومت میں آنے سے روکنا چاہیں تو نہیں روک سکیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب ووٹ کو لیکر مسلم نوجوانوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ 2019 کے انتخاب میں مسلمانوں کی ووٹنگ شرح ساٹھ فیصد تک رہی۔ ایک دوسرے متحرک سماجی رکن صلاح الدین محمد فرہاد نے کہا کہ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس مرتبہ مہم نہیں چلائی گئی ہے، اسکی وجہ کورونا وباء ہے کیونکہ جس وقت تیزی کے ساتھ کام کرنا تھا اس وقت لاک ڈاون نافذ تھا، کئی بندشیں تھیں اور ابھی بھی ہیں لیکن کچھ وقت جو بچا ہے اس کا استعمال کیا جائے۔ ورچوئل پروگرام کرکے لوگوں میں بیداری لائی جائے۔
انہوں نے تمام مسلم رائے دہندگان سے پر زور اپیل کی اور کہا کہ وہ فہرست رائے دہندگان میں اپنے ناموں کا اندراج لازمی طور پر کروائیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ جن افراد کے نام فہرست رائے دہندگان میں درج نہیں کروائے گئے ہیں اور جن کی عمر 18 برس ہوگئی ہو، ان کے نام اس فہرست میں درج کروانا ضروری ہے تاکہ بھارتی شہری ہونے کے ناطے وہ اپنے ووٹ کا استعمال کر سکیں اور ریاست کی خوشحالی وترقی میں مدد کریں۔ حکومت کی جانب سے مہیا کی جانے والی دیگر سہولیات سے استفادہ کریں۔
واضح ہو کہ ووٹر فہرست میں نام شامل کرنے کی کاروائی انتظامیہ کی جاری ہے، ہر اتوار کو خصوصی کیمپ بلاکس اور بوتھس پر لگائے جا رہے ہیں۔ جن کے ناموں میں اگر کوئی غلطی ہے تو اسکی بھی اصلاح کرائی جارہی ہے۔ نام شامل کرانے کا سلسلہ نوٹیفیکشن جاری ہونے تک چل سکتا ہے۔