ETV Bharat / city

گیا: تحریک آزادی میں مولانا سجاد کی خدمات فراموش - گیا میں مدرسہ انوار العلوم

ہندوستان کی تحریک آزادی میں علماء کے ساتھ ساتھ مدارس اسلامیہ بھی شانہ بشانہ شامل تھے، ان میں ایک بڑا نام مولانا ابوالمحاسن سجاد کا بھی ہے، جنھوں نے ملک کی آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعلیم اور ان کو منظم کرنے کی بھی تحریک چلائی۔

maulana sajjads services in independence movement forgotten
گیا: تحریک آزادی میں مولانا سجاد کی خدمات فراموش
author img

By

Published : Mar 19, 2021, 9:39 PM IST

ریاست بہار، ضلع گیا کے علماء کرام بھی جنگ آزادی کی تحریک میں شامل رہے، ان میں ایک بڑا نام مولانا ابوالمحاسن سجاد کا بھی ہے۔ مولانا سجاد جہاں ملک کی آزادی کی تحریک چلانے والوں کے ساتھ شامل رہے وہیں انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم اور ان کو منظم کرنے کی تحریک بھی چلائی، شہر گیا میں مدرسہ انوار العلوم کا قیام عمل میں لانے کے ساتھ انہوں نے درس و تدریس کی بھی ذمہ داری بخوبی انجام دی۔

گیا: تحریک آزادی میں مولانا سجاد کی خدمات فراموش

مولانا سجادؒ بہار شریف کے موضع پنہستہ میں ایک دینی گھرانے میں سنہ 1879 میں پیدا ہوئے، بہار شریف جس کا ہیڈ کوارٹر اس وقت ضلع گیا ہی تھا، مولانا تعلیم حاصل کرنے کے بعد گیا میں مقیم ہوگئے۔

بتایا جاتا ہے کہ گیا سے ہی امارت شرعیہ کی بنیاد ڈالنے کا ارادہ کیا تو اس وقت انہوں نے ملک کے بڑے بڑے علماء کو بھی جوڑنے کی تحریک چلائی، اسی وقت مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے مولانا سجاد کو تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا پیغام قاضی احمد حسین کے ذریعے بھجوایا تھا۔

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس معصوم عزیز کاظمی نے بتایا کہ مولانا سجاد نے نہ صرف مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کیں بلکہ انہوں نے اس ماحول کو بھی بنانے کی پوری کوشش کی جس کا اسلام درس دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مولانا ملی و قومی کاموں سے بھی وابستہ رہے، اس وقت سب سے بڑی جماعت جو آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی وہ کانگریس تھی کانگریس کے ساتھ اس وقت کے جو رہنما تھے جیسے راجندر پرساد، مولانا مظہرالحق، شری کرشن بابو اور انوگرہ بابو کے ساتھ مل کر جو بھی تحریک ہوئی جیسے کویٹ انڈیا موومنٹ ہو یا ڈنڈی مارچ ہو تمام تحریک کو آگے بڑھانے میں مولانا سجاد نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

معصوم عزیز کاظمی نے مزید بتایا کہ ملی نقطہ نظر سے امارت شرعیہ سب سے بڑا کارنامہ ہے، حالانکہ ان کا بھی یہ ماننا ہے کہ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ اس وقت جو قیادت کر رہے تھے زمانہ نے انھیں بھلا دیا ہے، ہند پاک تقسیم کے بعد جو تاریخیں مرتب کی گئی ہیں وہاں سے مسلمانوں کے رول کو کم کرکے دکھایا گیا ہے، اس طرح کا ماحول بنایا گیا کہ مسلمانوں کا آزادی میں بڑا رول نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ سنہ 1857 میں آزادی کی پہلی جنگ جو لڑی گئی اس میں صرف چار ہزار ہندو تھے جبکہ چالیس ہزار مسلمانوں نے اس جنگ میں قربانیاں پیش کیں۔


مولانا کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ انوارالعلوم کی خستہ حالی پر معصوم عزیز کاظمی نے کہا کہ یہ وہ ادارہ ہے جو آزادی کی تحریک کا گواہ ہے، یہ وہ ادارہ ہے جہاں آزادی سے قبل بڑے سیاسی پروگرام ہوئے، اس سب کے باوجود یہ مدرسہ خستہ حالی کا شکار ہے۔

مدرسہ انوارالعلوم کے موجودہ سکریٹری ڈاکٹر شمس الحسن خان عرف جاوید خان نے بتایا کہ آزادی کی تحریک میں مولانا سجاد کا نام ہندوستان کے متحرک علماء کی فہرست میں آتا تھا۔ انڈیپنڈنٹ پارٹی کے بانی ہونے کے ساتھ کئی اداروں کے بانی اور ناظم تھے، ملک اور قوم دونوں کے لیے انہوں نے قربانی پیش کی۔ مولانا سجاد کی قربانیوں کو فراموش کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ آج ان کا ادارہ اس حالت میں نہیں ہے جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے، واضح رہے کہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کا انتقال پر ملال سنہ 1940 میں ہوا، پٹنہ میں وہ مدفون ہیں۔

ریاست بہار، ضلع گیا کے علماء کرام بھی جنگ آزادی کی تحریک میں شامل رہے، ان میں ایک بڑا نام مولانا ابوالمحاسن سجاد کا بھی ہے۔ مولانا سجاد جہاں ملک کی آزادی کی تحریک چلانے والوں کے ساتھ شامل رہے وہیں انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم اور ان کو منظم کرنے کی تحریک بھی چلائی، شہر گیا میں مدرسہ انوار العلوم کا قیام عمل میں لانے کے ساتھ انہوں نے درس و تدریس کی بھی ذمہ داری بخوبی انجام دی۔

گیا: تحریک آزادی میں مولانا سجاد کی خدمات فراموش

مولانا سجادؒ بہار شریف کے موضع پنہستہ میں ایک دینی گھرانے میں سنہ 1879 میں پیدا ہوئے، بہار شریف جس کا ہیڈ کوارٹر اس وقت ضلع گیا ہی تھا، مولانا تعلیم حاصل کرنے کے بعد گیا میں مقیم ہوگئے۔

بتایا جاتا ہے کہ گیا سے ہی امارت شرعیہ کی بنیاد ڈالنے کا ارادہ کیا تو اس وقت انہوں نے ملک کے بڑے بڑے علماء کو بھی جوڑنے کی تحریک چلائی، اسی وقت مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے مولانا سجاد کو تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا پیغام قاضی احمد حسین کے ذریعے بھجوایا تھا۔

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس معصوم عزیز کاظمی نے بتایا کہ مولانا سجاد نے نہ صرف مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کیں بلکہ انہوں نے اس ماحول کو بھی بنانے کی پوری کوشش کی جس کا اسلام درس دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مولانا ملی و قومی کاموں سے بھی وابستہ رہے، اس وقت سب سے بڑی جماعت جو آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی وہ کانگریس تھی کانگریس کے ساتھ اس وقت کے جو رہنما تھے جیسے راجندر پرساد، مولانا مظہرالحق، شری کرشن بابو اور انوگرہ بابو کے ساتھ مل کر جو بھی تحریک ہوئی جیسے کویٹ انڈیا موومنٹ ہو یا ڈنڈی مارچ ہو تمام تحریک کو آگے بڑھانے میں مولانا سجاد نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

معصوم عزیز کاظمی نے مزید بتایا کہ ملی نقطہ نظر سے امارت شرعیہ سب سے بڑا کارنامہ ہے، حالانکہ ان کا بھی یہ ماننا ہے کہ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ اس وقت جو قیادت کر رہے تھے زمانہ نے انھیں بھلا دیا ہے، ہند پاک تقسیم کے بعد جو تاریخیں مرتب کی گئی ہیں وہاں سے مسلمانوں کے رول کو کم کرکے دکھایا گیا ہے، اس طرح کا ماحول بنایا گیا کہ مسلمانوں کا آزادی میں بڑا رول نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ سنہ 1857 میں آزادی کی پہلی جنگ جو لڑی گئی اس میں صرف چار ہزار ہندو تھے جبکہ چالیس ہزار مسلمانوں نے اس جنگ میں قربانیاں پیش کیں۔


مولانا کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ انوارالعلوم کی خستہ حالی پر معصوم عزیز کاظمی نے کہا کہ یہ وہ ادارہ ہے جو آزادی کی تحریک کا گواہ ہے، یہ وہ ادارہ ہے جہاں آزادی سے قبل بڑے سیاسی پروگرام ہوئے، اس سب کے باوجود یہ مدرسہ خستہ حالی کا شکار ہے۔

مدرسہ انوارالعلوم کے موجودہ سکریٹری ڈاکٹر شمس الحسن خان عرف جاوید خان نے بتایا کہ آزادی کی تحریک میں مولانا سجاد کا نام ہندوستان کے متحرک علماء کی فہرست میں آتا تھا۔ انڈیپنڈنٹ پارٹی کے بانی ہونے کے ساتھ کئی اداروں کے بانی اور ناظم تھے، ملک اور قوم دونوں کے لیے انہوں نے قربانی پیش کی۔ مولانا سجاد کی قربانیوں کو فراموش کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ آج ان کا ادارہ اس حالت میں نہیں ہے جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے، واضح رہے کہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کا انتقال پر ملال سنہ 1940 میں ہوا، پٹنہ میں وہ مدفون ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.