گیا کے بودھ گیا بلاک میں واقع چیرکی تھانہ علاقے میں ہزاروں ایکڑ زمین بنجر ہوگئی ہے۔ وجہ آبپاشی کے لیے نہر، ڈیم یا اسی طرح دوسرے وسائل کا نہ ہونا ہے۔ پچاس گاؤں پر ایک ڈیم 'ولی ڈیم' ہے، تاہم وہ بھی برسوں سے حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے خستہ حال اور ٹوٹا ہوا ہے۔
علاقے میں اگر ڈیم یا آبپاشی کے لیے دوسرے انتظامات کئے گئے ہوتے تو یہ بنجر زمین نہ صرف سرسبز و شاداب ہوتی بلکہ بیرون ریاست سے لوٹے مزدوروں کو روزگار بھی ملتا۔
مقامی کسان عمران خان کا کہنا ہے کہ 'علاقے کی ہزاروں ایکڑ زمین بنجر اس لیے رہ جاتی ہے کیونکہ ولی ڈیم برسوں سے ٹوٹا ہوا ہے۔ حکومت ڈیڑھ سو سال پرانے ولی ڈیم کی تعمیر پختہ کردے تو آبپاشی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔'
دراصل چیرکی تھانہ کے نسخہ گاؤں کے رہنے والے ایک زمیندار مرحوم ولی محمد خان نے سنہ 1920 سے قبل ذاتی طور پر اس ڈیم کی تعمیر کروائی تھی۔ مرحوم ولی خان کے پوتا ڈاکٹر توصیف الرحمن خان کہتے ہیں کہ 'ولی ڈیم جس جگہ پر ہے وہ جنگلی علاقہ ہے اور جمنا ندی اس سے متصل ہے۔'
ولی محمد خان مرحوم نے اس وقت مٹی کی اونچی دیوار بناکر پانی ذخیرہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بننے کے بعد پورا علاقہ سر سبزوشاداب ہوگیا تھا جس کی وجہ سے علاقہ کاشتکاری کے لیے مشہور تھا۔ تاہم ساٹھ کی دہائی میں یہ کچا ڈیم ٹوٹ گیا جس کے بعد ولی محمد خان کے گھر والوں اور علاقائی کسانوں کی دوڑ بھاگ سے سنہ 1965 میں حکومت نے اس کی مرمت کرائی۔ تاہم حکومت نے بھی اسے پختہ نہیں کیا۔
یہ ڈیم ہزاروں ایکڑ زمین کے لیے کافی نہیں ہے، تاہم خشک اور بنجر زمین کے لیے یہ انمول تحفہ ضرور ہے جو ولی محمد خان نے سوسال قبل علاقے کے کسانوں کے لیے وقف کیا تھا۔
علاقے کے کسان شہدیو یادو کے مطابق سنہ 1965 میں اس کی تعمیر حکومت نے دوبارہ سے کرائی لیکن اگلے برس ہی برسات میں ندی میں پانی زیادہ آنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ 2011 میں ایک این جی او نے اس کو پختہ کیا۔ تاہم دو برس بعد یہ دوبارہ سے ٹوٹ گیا جو اب تک اسی حالت میں ہے۔
انتظامیہ اور عوامی نمائندوں سے اس کی تعمیر کے مطالبہ کو لے کر خوب فریاد کی گئی لیکن کسی نے نہیں سنا۔
محمد شہباز خان کہتے ہیں کہ ڈیم تعمیر نہ ہونے سے کاشتکاری صرف بارش پر ہی منحصر ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو فصل اچھی نہیں ہوگی اور فصل اچھی نہ ہو تو علاقے کے باشندوں کو مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس علاقے کے زیادہ تر کسانوں کے پاس زمین کم ہے اور وہ کھیتی کر کے ہی زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن جب بارش نہیں ہوتی ہے تو دھان کی فصل بھی نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے کئی کسانوں کے گھر فاقہ کشی کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔
ولی ڈیم کی تعمیر کو لے کر سنہ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں نسخہ گاؤں سمیت کئی بڑے گاؤں نے ووٹ کا بائیکاٹ کیا تھا اس کے بعد بھی ولی ڈیم کی تعمیر کا معاملہ حل نہیں ہوا ہے۔
واضح ہوکہ جس جگہ غریب چک میں یہ ڈیم ہے وہ اور یہ نسخہ گاؤں کا علاقہ بارہ چٹی اسمبلی حلقے میں آتا ہے۔ بارہ چٹی حلقہ سے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ کے امیدوار نے جیت درج کی ہے۔
ہندوستانی عوام مورچہ موجودہ بہار حکومت میں شامل ہے اور محکمہ آبپاشی کے وزیر پارٹی کے رہنما و سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کے بیٹا سنتوش کمار سومن ہیں۔ متعدد بار گاؤں اور علاقے کے کسان رکن اسمبلی جیوتی دیوی اور وزیر سنتوش مانجھی سے مل کر اس کی تعمیر کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس کی تعمیر پر راستہ ہموار نہیں ہوا ہے۔
چیرکی تھانہ علاقہ کے درجنوں گاؤں اس امید میں ہیں کہ شاید کہ وزیر سنتوش مانجھی ولی ڈیم کے ختم ہوتے وجود کو بچالیں تاکہ اس کے بچنے سے ہزاروں گھر بچ جائیں۔ بنجر زمین پھر سے ہریالی سے لہلہانے لگیں۔ دھان کی فصل کے علاوہ ربیع فصل کی پیداوار یہاں ہونے لگے۔
مزید پڑھیں: اردو زبان سیل کی طرف سے فروغ اردو سیمینار و مشاعرہ کا انعقاد
وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا دعوی ہے کہ ان کی حکومت ہر کھیت تک آبپاشی کے لیے پانی پہنچائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے نذر انداز کر کے منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ برسوں پرانے ڈیم، نہر وغیرہ کی حفاظت اگر حکومت نہیں کرسکتی ہے تو پھر نئے سرے سے تعمیر پر کیا بھروسہ ہوگا۔