دہلی کی ایک عدالت نے جنتر منتر پر احتجاج کے دوران نفرت انگیز نعرے لگانے کے الزام میں گرفتار تین افراد کی ضمانت کی عرضی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک کو نفرت پھیلانے اور "غیر جمہوری" نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
جج نے کہا کہ ملزم دیپک سنگھ کو ایسے نعرے دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو کسی ایسے ملک کے شہری سے توقع نہیں کی جاتی، جہاں سیکولرزم جیسے اصول آئین میں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملزم پریت سنگھ کو ریلی میں ان کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے اور ملزم ونود شرما بھی اس وقت موقع پر موجود تھے۔
ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر 11 اگست کو جنتر منتر پر احتجاج کے دوران مسلم مخالف نعرے لگائے گئے تھے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ہے، جس کے بعد دہلی پولیس کو پیر کو ایک کیس درج کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: کانپور میں مسلم شخص کی بے رحمی سے پٹائی، جے شری رام کہنے پر بھی مجبور کیا گیا
میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ادبھو کمار جین نے ملزم کی ضمانت اس بنیاد پر مسترد کردی کہ اس کیس میں شریک ملزم اور بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے کو بدھ کو ضمانت مل گئی۔
جمعرات کو جاری کردہ حکم میں جج نے کہا کہ "ویڈیو کلپ میں آئی او (انویسٹی گیشن آفیسر) کی طرف سے شناخت شدہ ملزم کو غلط ریمارکس دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو غیر جمہوری ہے اور اس ملک کے کسی شہری سے توقع نہیں کی جا سکتی، جہاں سیکولرزم جیسے اصول آئین میں شامل ہیں۔" جج نے مبینہ ویڈیو دیکھی اور عدالت میں اس ویڈیو کو چلایا بھی گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن ہر فرد کے کچھ فرائض بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کانپور پٹائی معاملہ: قومی اقلیتی کمیشن کا پولیس کمشنر کو نوٹس
جنتر منتر معاملہ: زہر افشانی کرنے والے بی جے پی ترجمان سمیت چھ لوگ گرفتار
انہوں نے کہا "تعزیرات ہند کی دفعہ 153A کے پیچھے اصول مذہبی/فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حفاظت کرنا ہے اور یہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھے۔ یہ در اصل سیکولرزم کا مثبت پہلو ہے۔"
عدالت نے کہا کہ وہ فی الحال ان ویڈیوز کی سچائی کی جانچ نہیں کر سکتی، جو بعد کے مرحلے میں کئے جانے والے شواہد کی جانچ سے مشروط ہے۔