جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس ہیمنت گپتا کی بنچ نے اپنے ایک فیصلہ میں کہا ہے کہ پروموشن میں ریزرویشن شہریوں کا بنیادی حق نہیں ہے اور اس کے لئے ریاستی حکومتوں کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ اتنا ہی نہیں، عدالتیں بھی حکومت کو اس کے لیے پابند نہیں کر سکتی۔
عدالت نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 16 (4) اور (4 A) میں جو التزام ہیں، اس کے تحت ریاستی حکومت درج فہرست ذات و قبائل (ایس سی / ایس ٹی) کے امیدواروں کو پروموشن میں ریزرویشن دے سکتے ہیں لیکن یہ فیصلہ ریاستی حکومتوں کا ہی ہوگا۔
اگر کوئی ریاستی حکومت ایسا کرنا چاہتی ہے تو اسے سرکاری سروس میں اس طبقے کے نمائندگی کی کمی کے سلسلہ میں ڈیٹا جمع کرنا پڑے گا، کیونکہ ریزرویشن کے خلاف معاملہ اٹھنے پر ایسے اعداد و شمار عدالت میں رکھنے ہوں گے تاکہ اس کا پورا منشا کا پتہ چل سکے لیکن حکومتوں کو اس کے لیے پابند نہیں کیا جا سکتا۔
بنچ کا یہ حکم اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے 15 نومبر 2019 کے اس فیصلہ پر آیا ہے، جس میں اس نے ریاستی حکومت کو سروس قانون، 1994 کی دفعہ 3 (7) کے تحت ایس سی-ایس ٹی ملازمین کو پروموشن میں ریزرویشن دینے کے لیے کہا تھا جبکہ اتراکھنڈ حکومت نے ریزرویشن نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اتراکھنڈ میں محکمہ تعمیرات عامہ میں اسسٹنٹ انجینئر (سول) کے عہدوں پر پروموشن میں ایس سی / ایس ٹی کے ملازمین کو ریزرویشن دینے کا ہے، جس میں حکومت نے ریزرویشن نہیں دینے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ہائی کورٹ نے حکومت سے ان ملازمین کو پروموشن میں ریزرویشن دینے کو کہا تھا۔ ریاستی حکومت نے اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ اسسٹنٹ انجینئر کے عہدوں پر پروموشن کے ذریعہ مستقبل میں تمام خالی عہدے صرف ایس سی اور ایس ٹی کے ارکان سے بھر ےجانے چاہئے۔
عدالت عظمی نے ہائی کورٹ کے دونوں فیصلوں کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ۔