ETV Bharat / city

'حکومت، عوام کی آواز کو دبانے کے لیے سختی کر رہی ہے' - بولنے کی آزادی اور عدلیہ

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج مدن بی لوکور نے ایک ویبینار سے خطاب کے دوران کہا کہ حکومت عام شہری کی آواز کو دبانے کے لیے 'غدار وطن' کا الزام لگا رہی ہے ۔ اس سال اب تک اس سلسلے میں 70 معاملے درج کیے جاچکے ہیں، جو باعث تشویش ہے۔

جسٹس مدن بی لوکور: فائل فوٹو
جسٹس مدن بی لوکور: فائل فوٹو
author img

By

Published : Sep 15, 2020, 9:47 AM IST

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج مدن بی لوکور نے پیر کو کہا کہ حکومت بولنے کی آزادی پر روک لگانے کے لیے غداری وطن قانون کا سہارا لے رہی ہے۔ اور اس قانون کا جس طرح سے ابھی استعمال کیا جا رہا ہے ویسا اس سے قبل نہیں دیکھا گیا ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے عوام پر سختی ہے جس کی مخالفت کی جانی چاہیے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) مدن بی لوکور 'بولنے کی آزادی اور عدلیہ' کے موضوع پر نئی دہلی میں ایک ویبنار کو خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بولنے کی آزادی کو کچلنے کے لیے سرکار لوگوں پر فرضی خبریں پھیلانے کے الزام لگانے کا طریقہ بھی اپنا رہی ہے۔ جسٹس لوکور نے کہا کہ کورونا وائرس کے معاملے اور اس سے متعلق وینٹی لیٹر کی کمی جیسے ایشور کی رپورٹگنگ کرنے والے صحافیوں پر فرضی خبر پھیلانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔

جسٹس لوکور نے کہا' حکومت بولنے کی آزادی پر روک لگانے کے لیے غدار وطن کا قانون کا سہارا لے رہی ہے۔ اچانک ہی ایسے معاملے کی تعداد بڑھ گئی ہے جس میں لوگوں پر غدار وطن کے الزامات لگائے گئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ کچھ بھی بولنے والے ایک عام شہری پر غدار وطن کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اس سال اب تک غدار وطن کے 70 معاملے درج کیے جاچکے ہیں۔ اس ویبنار کا انعقاد آرگنائزر کیمپین فار جوڈیشیئل اکاؤنٹبیلیٹی اینڈ ریفارمس اور سوراج ابھیان نے کیا تھا۔

ممتاز وکیل پرشانت بھوشن کے خلاف عدالت کی ہتک عزت کے معاملے پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ان کے بیانوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے کی بھی مثال دی اور کہا کہ نیشنل سکیورٹی قانون کے تحت الزام لگاتے وقت ان کی تقریر اور شہری ترمیمی قانون کے خلاف ان کے بیانوں کو غلط انداز میں ٹریٹ کیا گیا اور اس کے غلط مطالب نکالے گئے'۔

اس موقع پر سینیئر صحافی و دا ہندو گروپ کے چیئرمین این رام نے کہا کہ پرشانت بھوشن کے معاملے میں دی گئی سزا سمجھ سے بالا تر ہے اور سپریم کورٹ کے ضابطے کا کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا' میرے دل میں عدالت کے تئیں بہت عزت ہے۔ یہ عدالت ہی ہے جس نے آئین میں شامل پریس کی آزادی کو سمجھا اور یہ حق فراہم کیا'۔

معروف سماجی کارکن ارون رائے نے کہا کہ بھوشن کو ملی سزا سے لوگوں کو تقویت ملی ہے اور اس معاملے نے لوگوں کو حوصلہ بھی دیا ہے۔

اس درمیان پرشانت بھوشن نے عدالت کے تئیں قابل اعتراض دو ٹوئٹز پر ہتک عزت کا قصور ٹھہرایا جانے کے بعد سزا کے طور پر ایک روپے کا جرمانہ سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جمع کرایا ہے۔ جرمانہ بھرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھوشن نے کہا کہ 'انہیں جرمانہ ادا کرنے کے لیے ملک کے سبھی حصوں سے تعاون ملا ہے اور اس تعاون سے ' ٹروتھ فنڈ' بنایا جائے گا جس سے ان تمام لوگوں کو قانونی امداد فراہم کی جائے گی جنہیں غیرقانونی طریقے سے پریشان کیا جائے گا یا غدار وطن کا لیبل لگاکر جیلوں میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی'۔

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج مدن بی لوکور نے پیر کو کہا کہ حکومت بولنے کی آزادی پر روک لگانے کے لیے غداری وطن قانون کا سہارا لے رہی ہے۔ اور اس قانون کا جس طرح سے ابھی استعمال کیا جا رہا ہے ویسا اس سے قبل نہیں دیکھا گیا ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے عوام پر سختی ہے جس کی مخالفت کی جانی چاہیے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) مدن بی لوکور 'بولنے کی آزادی اور عدلیہ' کے موضوع پر نئی دہلی میں ایک ویبنار کو خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بولنے کی آزادی کو کچلنے کے لیے سرکار لوگوں پر فرضی خبریں پھیلانے کے الزام لگانے کا طریقہ بھی اپنا رہی ہے۔ جسٹس لوکور نے کہا کہ کورونا وائرس کے معاملے اور اس سے متعلق وینٹی لیٹر کی کمی جیسے ایشور کی رپورٹگنگ کرنے والے صحافیوں پر فرضی خبر پھیلانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔

جسٹس لوکور نے کہا' حکومت بولنے کی آزادی پر روک لگانے کے لیے غدار وطن کا قانون کا سہارا لے رہی ہے۔ اچانک ہی ایسے معاملے کی تعداد بڑھ گئی ہے جس میں لوگوں پر غدار وطن کے الزامات لگائے گئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ کچھ بھی بولنے والے ایک عام شہری پر غدار وطن کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اس سال اب تک غدار وطن کے 70 معاملے درج کیے جاچکے ہیں۔ اس ویبنار کا انعقاد آرگنائزر کیمپین فار جوڈیشیئل اکاؤنٹبیلیٹی اینڈ ریفارمس اور سوراج ابھیان نے کیا تھا۔

ممتاز وکیل پرشانت بھوشن کے خلاف عدالت کی ہتک عزت کے معاملے پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ان کے بیانوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے کی بھی مثال دی اور کہا کہ نیشنل سکیورٹی قانون کے تحت الزام لگاتے وقت ان کی تقریر اور شہری ترمیمی قانون کے خلاف ان کے بیانوں کو غلط انداز میں ٹریٹ کیا گیا اور اس کے غلط مطالب نکالے گئے'۔

اس موقع پر سینیئر صحافی و دا ہندو گروپ کے چیئرمین این رام نے کہا کہ پرشانت بھوشن کے معاملے میں دی گئی سزا سمجھ سے بالا تر ہے اور سپریم کورٹ کے ضابطے کا کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا' میرے دل میں عدالت کے تئیں بہت عزت ہے۔ یہ عدالت ہی ہے جس نے آئین میں شامل پریس کی آزادی کو سمجھا اور یہ حق فراہم کیا'۔

معروف سماجی کارکن ارون رائے نے کہا کہ بھوشن کو ملی سزا سے لوگوں کو تقویت ملی ہے اور اس معاملے نے لوگوں کو حوصلہ بھی دیا ہے۔

اس درمیان پرشانت بھوشن نے عدالت کے تئیں قابل اعتراض دو ٹوئٹز پر ہتک عزت کا قصور ٹھہرایا جانے کے بعد سزا کے طور پر ایک روپے کا جرمانہ سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جمع کرایا ہے۔ جرمانہ بھرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھوشن نے کہا کہ 'انہیں جرمانہ ادا کرنے کے لیے ملک کے سبھی حصوں سے تعاون ملا ہے اور اس تعاون سے ' ٹروتھ فنڈ' بنایا جائے گا جس سے ان تمام لوگوں کو قانونی امداد فراہم کی جائے گی جنہیں غیرقانونی طریقے سے پریشان کیا جائے گا یا غدار وطن کا لیبل لگاکر جیلوں میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.