مسلم فریق کے سینئر وکیل راجیو دھون نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس ایس کے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی پانچ رکنی آئینی بنچ کو بتایا کہ ہندوؤں نے 1885 میں رگھوور داس کے مہنت ہونے سے انکار کردیا تھا اور بعد میں اسے قبول کرلیا ۔
سپریم کورٹ کے سامنے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں جن کے تحت اجودھیا کے متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر دھون نے عرضی گذار اقبال انصاری پر ہوئے حملے کو بدقسمتی قرار دیا۔ انہوں نے بنچ سے جب یہ مسئلہ حل کرنے کو کہا تو انہوں نے دیگر جسٹسوں کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا کہ ’’ہم اس معاملے کو یقینی طور پر دیکھیں گے۔‘‘
وکیل نے اس پر خصوصی توجہ دیئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی پر الزام نہیں لگارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان کے دہلی میں واقع اس مکان پر حملہ ہوا جس میں ایک تالا تک نہیں لگا ہوا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انصاری کو پولس مہیا کرانے کے باوجود اس پر حملہ کیسے ہوا۔
واضح رہے کہ رام جنم بھومی بابری مسجد زمینی تنازعہ کو ثالث کے ذریعہ حل کرنے کی سبھی کوششیں ناکام رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ 6 اگست سے روز مرہ کی بنیاد پر اس معاملے کی سماعت کی جارہی ہے۔