دہلی ہائی کورٹ میں مرکز نظام الدین کو کھولنے کے معاملے میں مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کر کے کہا ہے کہ مرکز نظام الدین کے احاطے کو محفوظ رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا اثر سرحد کے پار ہوگا اور دوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔
حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ مرکز نظام الدین میں 1,300 غیر ملکی شہری رہتے تھے۔ مرکز کے احاطے کو بند رکھنے کا فیصلہ وقتی طور پر کیا گیا ہے، جو عام لوگوں کے حق میں ہے۔ یہ آئین کی مخالفت میں نہیں ہے۔ احاطے کے مسجد میں کم تعداد میں لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تہواروں کے موقع پر ان کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ اس لیے بنیادی حقوق کی مخالف کی بات کہنا غلط ہے۔
جولائی میں ہائی کورٹ نے مرکز نظام الدین کو دوبارہ کھولنے کی مانگ پر مرکزی حکومت کو جواب داخل کرنے کا وقت دیا تھا۔
مزید پڑھیں: مرکز نظام الدین کی چابیاں مولانا سعد کے اہل خانہ کو سوپنے کا حکم
واضح رہے کہ رمضان المبارک کے وقت 16 اپریل میں دہلی ہائی کورٹ نے مرکز نظام الدین کو کھولنے کی اجازت دے دی تھی۔ کورٹ نے کہا تھا کہ جب دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ہدایت کے مطابق، دوسرے مذہبی جگہوں میں عبادت پر کوئی پابندی نہیں ہے تو مرکز نظام الدین میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد مختص کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تبلیغی جماعت کا نوح سے رشتہ
کورٹ میں درخواست دہلی وقف بورڈ نے دائر کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت نظام الدین میں موجود وقف کی جائیداد پر لگے تالے کھولیں جائے، جس پر 31 مارچ 2020 سے تالے لگے ہیں۔
معلوم ہوکہ گذشتہ 12 اپریل کو عدالت نے کہا تھا کہ جب دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ہدایت کے مطابق دوسرے مذہبی مقامات پر جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے تو مرکز نظام الدین میں بھی عبادت کے لیے تعداد کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔