امام کے قتل کے بعد نیشنل رائس اینڈ ریسورس سنٹر نے امام عرفان اور ان کی اہلیہ یاسمین کے بہیمانہ قتل کے واقعات پر فیکٹ فائنڈگ رپورٹ تیار کی ہے، جس کے باعث ہریانہ پولیس کی کارروائی پر سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔
دراصل گذشتہ مہینے کی آٹھ تاریخ کو ہریانہ کے سونی پت کے مانک ماجرا گاؤں میں مسجد کے پیش امام اور ان کی اہلیہ کابہیمانہ قتل کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد علاقے میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ بہر کیف ہریانہ پولیس نے اس قتل پر دفعہ 304 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جس پر پولیس کی کارکردگی پر سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔
پولیس پرالزامات ہیں کہ وہ قصواروں کوبچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اب یہ معاملہ قومی انسانی حقوق کمیشن اورقومی اقلیتی کمیشن تک پہنچ چکا ہے۔
این آرسی سی کی ٹیم نے 15ستمبر کو مقتول عرفان کے گاؤں کادورہ کیا اور اس کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ فیکٹ فائنڈگ ٹیم نے پولیس کے دعووں کی تحقیق کے لیے مقامی تھانہ کے اہلکاروں سے بات چیت کی۔ جس میں کئی چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے۔ این آرسی سی کی رپورٹ کے مطابق پولیس گرفتار شدہ کے خلاف ڈنڈا سے قتل کا الزام لگاہے۔ جبکہ موت دھاردھارہتھیارکے حملہ اورسفاکی سے زخمی کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی'۔
سلیم بیگ نے کئی صفحات پرمشتمل فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیارکی ہے، اور اسی رپورٹ کی بنیادپر انسانی حقوق اوراقلیتی کمیشن میں شکایت داخل کی ہے۔ شکایت کے مطابق قتل کے بعدگاؤں والوں کے بیانات پرمشتمل یہ رپورٹ آئی کہ امام اوراس کی اہلیہ کاقتل دھاردھارہتھیارسے ہوا، سر سے زبان تک کاسراخ اس کی گواہی بھی دیرہاتھا۔ لیکن پولیس نے ملزم ستبیرکے بیان کے بعد کہا کہ قتل ڈنڈے سے ہواتھا۔ اس مقدمہ میں عرفان کی اہلیہ کے ساتھ جنسی زیادتی کاکوئی ذکرنہیں جبکہ عرفان کے اہل خانہ نے بہوکے ساتھ جنسی زیادی کی بات بھی کہہ رہے ہیں۔'
این آرسی سی کی رپورٹ میں مسجدکے سامنے کی زمین پرایک عالیشان مندر کی تعمیر کاذکر بھی کیا گیا ہے۔
آخر ہریانہ پولیس عرفان اوریاسمین کے بہیمانہ قتل کوکیوں چھپارہی ہے۔ کہیں وہ مجرموں کوبچانے کی کوشش تونہیں کررہی ہے۔کہیں اس قتل کے پس پردہ کوئی بڑی سازش تونہیں جس کومنظرعام پرآنے سے پولیس ڈررہی ہوہے ان سوالات کے جوابات ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔؟