قومی دارالحکومت دہلی میں قومی اقلیتی کمیشن ملک کی چھ اقلیتوں مسلم، عیسائی، سکھ، جین، بودھ اور پارسی طبقات کو سرکاری یا سماجی سطح پر پیش آنے والے امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھاتا ہے لیکن ان دنوں یہاں اقلیتوں کے مسائل سننے کے لیے اراکین موجود ہی نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ قومی اقلیتی کمیشن میں سات رکن ہوا کرتے تھے لیکن یہ ادارہ ان دنوں ایک آدمی کے سہارے چل رہا ہے۔ کمیشن کی ذمہ داری کارگزار چیئرمین عاطف رشید کے کندھوں پر ہے۔
عاطف رشید نومبر 2020 سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس کمیشن کے چیئرمین غیور الحسن رضوی کی مدت مئی 2020 میں پوری ہوئی تھی جس کے بعد سے ہی یہ اہم منصب خالی پڑا ہے۔
قیادت کا عظیم فریضہ ان دنوں وائس چیئرمین عاطف رشید بطور کارگزار چیئرمین نبھا رہے ہیں اور ان کے ساتھ دوسرا کوئی رکن کمیشن میں باقی نہیں ہے۔
اسی سے متعلق آج پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر اقلیت مختار عباس نقوی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نامزدگی کے عمل میں شامل دفعات کی وجہ سے یہ نامزدگی کا عمل تھوڑا سست ہوا ہے کیونکہ اس کے لیے ممتاز، قابل دیانتداری والے افراد کا انتخاب ہونا چاہیے اور یہ تمام عہدے کورونا کے دور میں خالی ہوئے تھے جس کی وجہ سے بھی اراکین کی نامزدگی میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر کارروائی جاری ہے۔ جلد ہی تمام آسامیوں کو تیزی سے پُر کیا جائے گا جس سے کمیشن کی پریشانیاں کم ہوسکیں۔
کمیشن میں تمام اراکین اپنی تین سالہ مدت مکمل کرکے جاتے رہے لیکن ان کی جگہ دوسرے اراکین کی تقرری نہیں کی گئی۔ ایسے میں اقلیتی کمیشن کی کارکردگی متاثر ہونا لازمی ہے۔
قومی اقلیتی کمیشن میں کل وقتی چیئرمین اور وائس چیئرمین سمیت مجموعی سات اراکین ہوتے ہیں۔ اب محض وائس چیئرمین عاطف رشید ہی کام کر رہے ہیں جبکہ بقیہ تمام عہدے خالی پڑے ہیں۔
اراکین کی تقرری اور قیادت کا منصب مہینوں سے خالی ہے۔ سرکار کی تلاش ایک عرصہ سے پوری نہیں ہو پا رہی ہے۔
خیال رہے کہ ہر رکن کی مدت کار تین سال کی ہوتی ہے اور ہر رکن کو کم و بیش نصف درجن ریاستوں کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔