ETV Bharat / city

'اردو محبت کی زبان ہے'

جشن بہارٹرسٹ کی جانب سے دہلی میں ایک بین الاقوامی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں ملک و بیرون ملک سے آئے شاعروں نے اپنا کلام پیش کیا۔

دہلی میں مشاعرہ
author img

By

Published : Oct 19, 2019, 9:40 PM IST

مشا‏عرے میں سامعین بہتر اشعار سے لطف اندوز ہوئے اور داد و تحسین سے شاعروں کو نوازا۔

اس سے قبل جشن بہار کی روح رواں کامنا پرساد نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور کہا کہ 'اردو گاندھی وادی ہے، محبت کی زبان ہے، امن واتحاد کی بات کرتی ہے۔ مذہبوں کو زبان درکار ہے لیکن زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔'

مشاعرے میں دہلی کے نائب وزیراعلی منیش سسودیا نے کہا کہ 'ایسے بہارکے موسم میں مشاعرہ کرنا بڑی بہادری کی بات ہے۔ ان کا اشارہ اقتصادی بحران کی طرف تھا۔'

دہلی میں مشاعرہ

انہوں نے مزید کہا کہ 'دہلی جیسے ہندوستان کا دارالحکومت ہے ویسے ہی اردو کا بھی دارالحکومت ہے۔ اردوئے معلی بھی یہیں سے ہے اور اردوبازار بھی یہیں ہے۔'

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پہلی خاتون وائس چانسلر محترمہ نجمہ اختر نے ادبی جشن میں بحیثیت مہمان ذی وقار شرکت کرتے ہوئے کہا کہ 'جشن بہار مشاعرہ ہمارے مشترکہ ثقافتی ورثے کا جشن ہے۔ اردو اپنے آغاز سے ہی ہندوستان کی سیکولر اقدار کی حفاظت کررہی ہے۔'

مشاعرے کو کامیاب بنانے والے ممتاز شعرا و شاعرات میں بیرون ملک واشنگٹن سے ڈاکٹر عبداللہ، ہیوسٹن سے ڈاکٹرنوشہ اسرار، دوحہ قطرسے عزیز نبیل اور ابوظہبی سے سیدسروش آصف، جب کہ ملک ہندوستان سے پروفیسر وسیم بریلوی، ڈاکٹر نصرت مہدی، اقبال اشہر، عقیل نعمانی، پروفیسر مینو بخشی، لیاقت جعفری، پروین کیف، ڈاکٹر نزہت انجم، عبدالرحمن منصور، مدن موہن دانش، اظہراقبال، ندیم شاد اور ناظم مشاعرہ آلوک شریواستوقابل ذکر ہیں۔

میرٹھ سے تعلق رکھنے والے شاعر اظہر اقبال نے بڑی خوبصورتی سے پڑھا۔

'جنوں کم ہے تومجھ سے شاعری کم ہو رہی ہے
تمہیں پاکر میری دیوانگی کم ہو رہی ہے'

اس کے بعد آلوک شری واستو نے دہلی کی روایتی شاعری کو بنارس تک لے گئے اور خوبصورت اشعار پڑھے۔

ابوظہبی سے آئے سید سروش آصف نے پڑھا۔

'مجھ میں کوئی مجھ ساہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
یا پھر کوئی اور چھپا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

مشاعرے میں بزرگ شاعر پروفیسر بریلوی نے پروقاری شاعری کرتے ہوئے کہا

'ٹھوکروں کو بھی نہیں ہوتی ہراک سر کی تلاش
کسے آتا ہے سجدہ کرنا دعاوں کے ساتھ'

-پروفیسروسیم بریلوی

معمولی سے اک بشرہو تم عبداللہ
دنیا کے جھگڑے تم سے کیسے نپٹیں گے
اس لیے تم میری مانو
اپنے کام سے کام رکھو اور چادر اوڑھ کے لمبی تانو!
-ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ

اک کمزور دیے نے تو اجالا بخشا
دیکھنا یہ ہے، اجالے نے کسے کیا بخشا
-ڈاکٹر نوشہ اسرار

بکھر چکا ہے تعلق، کسا و مشکل ہے
چلو ہٹاؤ کہ اب رکھ رکھاؤ مشکل ہے
-ڈاکٹر نصرت مہدی

مجھ میں کوئی مجھ جیسا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
یا پھر کوہی اور چھپا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
-سید سروش آصف

بے فیض اک چراغ بتایا گیا مجھے
سورج بجھا تو ڈھونڈ کے لایا گیا مجھے
ابھرا ہراک بار نیا پھول بن کے میں
مٹی میں جتنی بار ملایا گیا مجھے
-اقبال اشہر

خوشی یہ ہے کہ میں سورج کی دستک سن رہا ہوں
قلق یہ ہے چراغوں سے جدا ہونا پڑے گا
-عقیل نعمانی

سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا
تم کسی روز میرے رنگ میں آؤ تو سہی
-عزیز نبیل

رسم وفا نبھانا تو غیرت کی بات ہے
وہ مجھ کو بھول جائے یہ حیرت کی بات ہے
-ڈاکٹر نزہت انجم

بڑھا کر ہاتھ ساری حد مٹا دے
زمینوں کے کشادہ قد مٹا دے
کبھی بچے کو نقشہ مت دکھانا
نہ جانے کون سی سرحد مٹا دے
-لیاقت جعفری

کیوں پریشاں نظر آتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
جب کبھی ہم تیری محفل میں نظر آتے ہیں
-پروفیسر مینو بخشی

دوپہر مسجد میں یہ اعلان فرمایا گیا
ایک بچہ رہ رہا ہے، جن کا ہے لے جائیے
دوڑ کر بدلو میاں پہنچے مؤذن سے کہا
جن کا بچہ کیسے ہوتا ہے ہمیں دکھلائیے
-عبدالرحمن منصور

اور کیا آخر تجھے اے زندگی چاہیے
آرزو کل آگ کی تھی، آج پانی چاہیے
-مدن موہن دانش

دل کے ہیں برے لیکن اچھے بھی تو لگتے ہیں
ہر بات سہی جھوٹی، سچے بھی تو لگتے ہیں
-پروین کیف

چہکتے گھر مہکتے کھیت اور وہ گاؤں کی گلیاں
جنہیں ہم چھوڑ آئے ان سبھی کہ جیتے رہتے ہیں
-آلوک شریواستو

جنون کم ہے تو مجھ سے شاعری کم ہو رہی ہے
تمہیں پاکر میری دیوانگی کم ہو رہی ہے
-اظہر اقبال

چاہے سب کھوجائے لیکن ان کو مت کھونا
جن کو تیری آنکھ کا آنسو دریا لگتا ہے
-ڈاکٹرندیم شاد

مشا‏عرے میں سامعین بہتر اشعار سے لطف اندوز ہوئے اور داد و تحسین سے شاعروں کو نوازا۔

اس سے قبل جشن بہار کی روح رواں کامنا پرساد نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور کہا کہ 'اردو گاندھی وادی ہے، محبت کی زبان ہے، امن واتحاد کی بات کرتی ہے۔ مذہبوں کو زبان درکار ہے لیکن زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔'

مشاعرے میں دہلی کے نائب وزیراعلی منیش سسودیا نے کہا کہ 'ایسے بہارکے موسم میں مشاعرہ کرنا بڑی بہادری کی بات ہے۔ ان کا اشارہ اقتصادی بحران کی طرف تھا۔'

دہلی میں مشاعرہ

انہوں نے مزید کہا کہ 'دہلی جیسے ہندوستان کا دارالحکومت ہے ویسے ہی اردو کا بھی دارالحکومت ہے۔ اردوئے معلی بھی یہیں سے ہے اور اردوبازار بھی یہیں ہے۔'

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پہلی خاتون وائس چانسلر محترمہ نجمہ اختر نے ادبی جشن میں بحیثیت مہمان ذی وقار شرکت کرتے ہوئے کہا کہ 'جشن بہار مشاعرہ ہمارے مشترکہ ثقافتی ورثے کا جشن ہے۔ اردو اپنے آغاز سے ہی ہندوستان کی سیکولر اقدار کی حفاظت کررہی ہے۔'

مشاعرے کو کامیاب بنانے والے ممتاز شعرا و شاعرات میں بیرون ملک واشنگٹن سے ڈاکٹر عبداللہ، ہیوسٹن سے ڈاکٹرنوشہ اسرار، دوحہ قطرسے عزیز نبیل اور ابوظہبی سے سیدسروش آصف، جب کہ ملک ہندوستان سے پروفیسر وسیم بریلوی، ڈاکٹر نصرت مہدی، اقبال اشہر، عقیل نعمانی، پروفیسر مینو بخشی، لیاقت جعفری، پروین کیف، ڈاکٹر نزہت انجم، عبدالرحمن منصور، مدن موہن دانش، اظہراقبال، ندیم شاد اور ناظم مشاعرہ آلوک شریواستوقابل ذکر ہیں۔

میرٹھ سے تعلق رکھنے والے شاعر اظہر اقبال نے بڑی خوبصورتی سے پڑھا۔

'جنوں کم ہے تومجھ سے شاعری کم ہو رہی ہے
تمہیں پاکر میری دیوانگی کم ہو رہی ہے'

اس کے بعد آلوک شری واستو نے دہلی کی روایتی شاعری کو بنارس تک لے گئے اور خوبصورت اشعار پڑھے۔

ابوظہبی سے آئے سید سروش آصف نے پڑھا۔

'مجھ میں کوئی مجھ ساہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
یا پھر کوئی اور چھپا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

مشاعرے میں بزرگ شاعر پروفیسر بریلوی نے پروقاری شاعری کرتے ہوئے کہا

'ٹھوکروں کو بھی نہیں ہوتی ہراک سر کی تلاش
کسے آتا ہے سجدہ کرنا دعاوں کے ساتھ'

-پروفیسروسیم بریلوی

معمولی سے اک بشرہو تم عبداللہ
دنیا کے جھگڑے تم سے کیسے نپٹیں گے
اس لیے تم میری مانو
اپنے کام سے کام رکھو اور چادر اوڑھ کے لمبی تانو!
-ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ

اک کمزور دیے نے تو اجالا بخشا
دیکھنا یہ ہے، اجالے نے کسے کیا بخشا
-ڈاکٹر نوشہ اسرار

بکھر چکا ہے تعلق، کسا و مشکل ہے
چلو ہٹاؤ کہ اب رکھ رکھاؤ مشکل ہے
-ڈاکٹر نصرت مہدی

مجھ میں کوئی مجھ جیسا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
یا پھر کوہی اور چھپا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
-سید سروش آصف

بے فیض اک چراغ بتایا گیا مجھے
سورج بجھا تو ڈھونڈ کے لایا گیا مجھے
ابھرا ہراک بار نیا پھول بن کے میں
مٹی میں جتنی بار ملایا گیا مجھے
-اقبال اشہر

خوشی یہ ہے کہ میں سورج کی دستک سن رہا ہوں
قلق یہ ہے چراغوں سے جدا ہونا پڑے گا
-عقیل نعمانی

سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا
تم کسی روز میرے رنگ میں آؤ تو سہی
-عزیز نبیل

رسم وفا نبھانا تو غیرت کی بات ہے
وہ مجھ کو بھول جائے یہ حیرت کی بات ہے
-ڈاکٹر نزہت انجم

بڑھا کر ہاتھ ساری حد مٹا دے
زمینوں کے کشادہ قد مٹا دے
کبھی بچے کو نقشہ مت دکھانا
نہ جانے کون سی سرحد مٹا دے
-لیاقت جعفری

کیوں پریشاں نظر آتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
جب کبھی ہم تیری محفل میں نظر آتے ہیں
-پروفیسر مینو بخشی

دوپہر مسجد میں یہ اعلان فرمایا گیا
ایک بچہ رہ رہا ہے، جن کا ہے لے جائیے
دوڑ کر بدلو میاں پہنچے مؤذن سے کہا
جن کا بچہ کیسے ہوتا ہے ہمیں دکھلائیے
-عبدالرحمن منصور

اور کیا آخر تجھے اے زندگی چاہیے
آرزو کل آگ کی تھی، آج پانی چاہیے
-مدن موہن دانش

دل کے ہیں برے لیکن اچھے بھی تو لگتے ہیں
ہر بات سہی جھوٹی، سچے بھی تو لگتے ہیں
-پروین کیف

چہکتے گھر مہکتے کھیت اور وہ گاؤں کی گلیاں
جنہیں ہم چھوڑ آئے ان سبھی کہ جیتے رہتے ہیں
-آلوک شریواستو

جنون کم ہے تو مجھ سے شاعری کم ہو رہی ہے
تمہیں پاکر میری دیوانگی کم ہو رہی ہے
-اظہر اقبال

چاہے سب کھوجائے لیکن ان کو مت کھونا
جن کو تیری آنکھ کا آنسو دریا لگتا ہے
-ڈاکٹرندیم شاد

Intro: ’ جشن بہارمشاعرہ سے سامعین لطف اندوزہوئے
نئی دہلی:
جشن بہارٹرسٹ کے ذریعہ دہلی میں ایک بین الاقوامی مشاعرہ کاانعقادکیاگیا،جس میں ملک وبیرون سے آئے شاعروں نے اپناکلام سنایا۔ سامعین بہتراشعارسے لطف اندوزہوئے اوردادوتوصیف سے نوازا۔
میرٹھ کے شاعراظہراقبال نے بڑی خوبصورتی سے پڑھا:
جنوں کم ہے تومجھ سے شاعری کم ہورہی ہے
تمہیں پاکرمیری دیوانگی کم ہورہی ہے
اس کے بعدآلوک شری واستونے دہلی کی روایتی شاعری کوبنارس تک لے گئے اورخوبصورت اشعارپڑھے۔
ابوظہبی سے آئے سیدسروش آصف نے پڑھا:
مجھ میں کوئی مجھ ساہوایسابھی ہوسکتاہے
یاپھرکوئی اورچھپاہوایسابھی ہوسکتاہے
مشاعرہ میں بزرگ شاعرپروفیسربریلوی نے پروقاری شاعری کرتے ہوئے کہا:
ٹھوکروں کوبھی نہیں ہوتی ہراک سرکی تلاش
کسے آتاہے سجدہ کرنادعاوں کے ساتھ
اس سے قبل جشن بہارکی روح رواں کامناپرسادنے استقبالیہ کلمات پیش کئے اورکہاکہ اردوگاندھی وادی ہے، محبت کی زبان ہے،امن واتحادکی بات کرتی ہے۔مذہبوں کوزبان درکارہے،لیکن زبانوں کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔
دہلی کے وزیراعلی منیش سسوڈیانے کہاکہ ایسے بہارکے موسم مشاعرہ کرنابڑی بہادری کی بات ہے،ان کااشارہ اقتصادی بحران کی طرف تھا۔انہوںنے مزیدکہا کہ دہلی جیسے ہندوستان کی راجدھانی ہے ویسے ہی اردو کی بھی دارالحکومت ہے۔اردوئے معلی بھی یہیں سے ہے اور اردوبازار بھی یہیں ہے۔میں نے اپنے بزرگوں کو اردو پڑھتے، لکھتے دیکھا ہے اور جشن بہار جیسے مقبول مشاعرےاس زبان کی ہندوستانیت کے گواہ ہیں، ایسے میں اس زبان کو جو لوگ آج کل 'فورین' (غیرملکی) قرار دے رہے ہیں انہیں ہندوستان کی تاریخ اور مشترکہ تہذیب پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پہلی خاتون وائس چانسلر محترمہ نجمہ اختر نےادبی جشن میں بحیثیت مہمان ذی وقار شرکت کرتے ہوئے کہا کہ جشن بہار مشاعرہ ہمارے مشترکہ ثقافتی ورثے کا جشن ہے۔ اردو اپنے آغاز سے ہی ہندوستان کی سیکولر اقدار کی حفاظت کررہی ہے۔ اردو نسل نو کی ذہن سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، انہیں ادب وآداب سکھاتی ہے۔مشاعرہ کی صدر اورحال ہی میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز ممتاز ادیبہ چترا مدگل نے کہا کہ دیش اور سماج کی گنگاجمنی تہذیب کو جب جب تنگ نظری نے اکسانے، ادھیڑنے،توڑنے اور الگ کرنے کوشش کی ہے تو اردو آگے آئی ہے۔اس کی نظموں اور غزلوں نے لوگوں کو گلے لگا کر ان کے زخموں پر مرہم کا کام کیا ہےاور سمجھایا ہے کہ اہم اپنی مشترکہ ثقافت کو کیسے سنبھال کر رکھیں اور کیوں کر رکھیں۔مشاعرہ جشن بہار -2019 میں مرکزی خیال قومی یکجہتی اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی تھا۔ دنیائے اردو ادب کے سرفہرست ناموں نے اپنی تازہ ترین کلام سے تقریبا چارہزار شائقین کو خوب محظوظ اور مسحور کیا۔بین الاقوامی مشاعرہ پہلی مرتبہ پوری دنیا میں لائیو ویب کاسٹ بھی ہوا۔مشاعرہ جشن بہار کی محفل کو کامیاب بنانے والے ممتاز شعرا وشاعرات میں بیرون ملک واشنگٹن سے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، ہیوسٹن سے ڈاکٹرنوشہ اسرار، دوحہ قطرسے عزیز نبیل اور ابوظہبی سے سیدسروش آصف، جب کہ ملک ہندوستان سے پروفیسر وسیم بریلوی، ڈاکٹر نصرت مہدی، اقبال اشہر، عقیل نعمانی، پروفیسر مینو بخشی،لیاقت جعفری، پروین کیف، ڈاکٹر نزہت انجم، عبدالرحمن منصور، مدن موہن دانش، اظہراقبال، ندیم شاد اور ناظم مشاعرہ آلوک شریواستوقابل ذکر ہیں۔
بیرون ملک سے:
ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ(واشنگٹن)، ڈاکٹرنوشہ اسرار(ہیوسٹن)، عزیز نبیل (دوحہ قطر)اورسیدسروش آصف( ابوظہبی )۔
ملک ہندوستان سے:
پروفیسروسیم بریلوی(بریلی)، ڈاکٹرنصرت مہدی(بھوپال)، اقبال اشہر(دہلی)، عقیل نعمانی(رامپور)، پروفیسرمینوبخشی(دہلی)،لیاقت جعفری(جموں)، پروین کیف(بھوپال)، ڈاکٹر نزہت انجم، (لکھنو¿) ، عبدالرحمن منصور(فریدآباد)، مدن موہن دانش(گوالیار)، اظہراقبال(میرٹھ)، ڈاکٹر ندیم شاد(دیوبند) اور ناظم مشاعرہ آلوک شریواستو(دہلی)۔
مشاعرہ جشن بہار-2019 میں پڑھے گئے چنندہ کلام:

ٹھوکروں کو بھی نہیں ہوتی ہر اک سر کی تلاش
کسے آتا ہے سجدہ کرنا دعاو¿ں کے ساتھ
پروفیسروسیم بریلوی
معمولی سے اک بشرہو تم عبداللہ
دنیا کے جھگڑے تم سے کیسے نپٹیں گے
اس لیے تم میری مانو
اپنے کام سے کام رکھو اورچادراوڑھ کے
لمبی تانو!
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ
اک کمزور دیےنے تو اجالا بخشا
دیکھنا یہ ھے، اجالے نے کسے کیا بخشا
ڈاکٹر نوشہ اسرار
بکھرچکاہے تعلق، کساو¿ مشکل ہے
چلو ہٹاو¿ کہ اب رکھ رکھاو¿ مشکل ہے
ڈاکٹر نصرت مہدی
مجھ میں کوئی مجھ جیسا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
یا پھر کوہی اور چھپا ہو ایسا بھی ہوسکتا ہے
سید سروش آصف
بے فیض اک چراغ بتایا گیا مجھے
سورج بجھا تو ڈھونڈ کے لایاگیا مجھے
ابھرا ہراک بار نیا پھول بن کے میں
مٹی میں جتنی بار ملایا گیا مجھے
اقبال اشہر
خوشی یہ ہے کہ میں سورج کی دستک سن رہا ہوں
قلق یہ ہے چراغوں سے جدا ہوناپڑے گا
عقیل نعمانی
سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا
تم کسی روز میرے رنگ میں آو¿ توسہی
عزیز نبیل
رسم وفا نبھانا تو غیرت کی بات ہے
وہ مجھ کو بھول جائے یہ حیرت کی بات ہے
ڈاکٹر نزہت انجم
بڑھاکر ہاتھ ساری حد مٹا دے
زمینوں کے کشادہ قد مٹا دے
کبھی بچے کو نقشہ مت دکھانا
نہ جانے کون سی سرحد مٹادے
لیاقت جعفری
کیوں پریشاں نظر آتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
جب کبھی ہم تیری محفل میں نظر آتے ہیں
پروفیسر مینو بخشی
دوپہر مسجد میں یہ اعلان فرمایا گیا
ایک بچہ رہ رہاہے، جن کا ہے لے جائیے
دوڑ کر بدلو میاں پہنچے مو¿ذن سے کہا
جن کا بچہ کیسے ہوتا ہے ہمیں دکھلائیے
عبدالرحمن منصور
اور کیا آخر تجھے اے زندگی چاہیے
آرزو کل آگ کی تھی، آج پانی چاہیے
مدن موہن دانش
دل کے ہیں برے لیکن اچھے بھی تو لگتے ہیں
ہر بات سہی جھوٹی، سچے بھی تو لگتے ہیں
پروین کیف
چہکتے گھر مہکتے کھیت اور وہ گاو¿ں کی گلیاں
جنہیں ہم چھوڑ آئے ان سبھی کہ جیتے رہتے ہیں
آلوک شریواستو
جنون کم ہے تو مجھ سے شاعری کم ہورہی ہے
تمہیں پاکر میری دیوانگی کم ہو رہی ہے
اظہر اقبال
چاہے سب کھوجائے لیکن ان کو مت کھونا
جن کو تیری آنکھ کا آنسو دریا لگتا ہے
ڈاکٹرندیم شاد


موجوسے ویڈیوبھیج دیاہے
Body:@Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.