آج سے تقریبا 3 دہائی قبل کتابت کا کام اپنے عروج پر تھا اس دور میں اخبارات،کتابیں، رسائل، پوسٹر، بینر وغیرہ ایک اچھے کاتب کی منتظر ہوا کرتے تھے لیکن جب سے کاتب کی ذمہ داری کمپوٹر نے سنبھالی ہے تب سے کاتب کام کے منتظر رہتے ہیں۔دارالحکومت دہلی کے اردو بازار میں گذشتہ 40 برسوں سے کاتب کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے والے محمد غالب بتاتے ہیں کہ ایک دور تھا جب ان کے پاس کام کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی لیکن جیسے جیسے کمپیوٹر کا استعمال بڑھتا گیا ویسے ویسے ان کا کام بھی کم ہوتا چلا گیا۔One of the Last Calligraphers of Old Delhi’s Urdu Bazaar
مزید پڑھیں:اسلامی تہذیب کی عکاسی بذریعہ فن خطاطی
محمد غالب نے بتایا کہ جب وہ دار العلوم دیوبند سے کتابت کا فن حاصل کرکے دہلی میں روزگار کی تلاش میں آئے تھے تب انہیں اردو بازار میں کام کرنے کا موقع ملا تھا جب یہاں بیشتر کتب خانوں میں کاتب ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ اردو بازار میں اکیلے کتابت کر رہے ہیں۔آج کل تمام سیاسی جماعتیں اپنی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتی ہیں لیکن 20 برس قبل کاتب کے ہاتھوں سے ہی پوسٹر لکھوانےکا رواج تھا اور جیسے ہی انتخابات نزدیک آتے تو کاتب پر بھی کام کا بوجھ بڑھ جاتا اور رات کے آخری پہر تک وہ کام کیا کرتے تھے غالب کے مطابق انہوں نے کئی بڑے لیڈران کے پوسٹر کی کتابت کی ہے۔