دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرظفرالاسلام خان جو مرکزی حکومت کے شدید ناقد ہیں اور اپنے کئی تبصروں کی وجہ سے پریشانیوں کا سامناکررہے ہیں۔ انہوں نے ایک بلاگ لکھ کرحیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ایک مسلم پروفیسرعہدے کی تلاش میں سمجھوتہ بم دھماکہ میں ملزم رہے سنگھ کے مشہو رلیڈر اندریش کمار تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے لکھاکہ' ایک اسکالر، معروف یونیورسٹی کے پروفیسر، سے میری سرسری ملاقات کبھی ان کی یونیورسٹی میں اور کبھی کسی سیمینار میں برسوں سے ہوتی رہی۔ ان کے علم، لیاقت اور فی البدیہ قادر الکلامی سے میں متاثر تھا۔ پھر گذشتہ برس ایک سیمینار کے دوران کمروں کی کمی کی وجہ سے منتظمین نے ہم دونوں کو ایک مشترک کمرہ دے دیا، جس کے دوران مذکورہ پروفیسر سے کافی بات چیت رہی اور میں ان کی ذہانت اور علم کا مزید قائل ہو گیا'۔
ان کے مطابق'چند روز قبل میرے پاس ان کا فون آیا کہ کسی طرح میری ملاقات وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی سے کرا دیجئے۔ میں نے بتایا کہ میں ان لوگوں سے دور رہتا ہوں، لیکن آپ کو دو آدمیوں کے نمبر بھیج رہا ہوں جن کے ان سے تعلقات ہونے چاہئیں اور آپ میرا حوالہ دے سکتے ہیں کیونکہ وہ دونوں لوگ مجھے ٹھیک سے جانتے ہیں۔ چند روز بعد مذکورہ پروفیسر صاحب کا پھر فون میرے پاس آیا کہ میں نے دونوں لوگوں سے بات کر لی ہے اور انھوں نے بہت اخلاق سے مجھ سے بات کی ہے اور میرا بایوڈیٹا مانگا ہے، جو میں نے بھیج دیا۔'
میں نے کہا: یہ تو بہت اچھا ہے، وہ لوگ یقیناً آپ کی مدد کریں گے۔ انھوں نے کہا: یہ تو ٹھیک ہے، لیکن میں اندریش جی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، کسی طرح آپ ان سے میری ملاقات کرا دیں۔ میں نے ان سے پھر کہا کہ میرا ایسے لوگوں سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہیں ہے اور میں اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ہوں لیکن شاید وہ دونوں لوگ کر سکتے ہوں جن کے نمبر میں نے آپ کو پہلے دئے ہیں۔ اس کے بعد میں نے اپنی عادت کیخلاف خود سے فون بند کر دیا۔ ان چند جملوں نے مجھے جھنجھوڑ دیا اور مذکورہ پروفیسر صاحب کی جو تصویر میں نے اپنے ذہن میں بنا رکھی تھی وہ مسخ ہوگئی۔'
شیشہ ٹوٹ گیا اور کانچ کے ٹکڑے بکھر گئے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ کس طرح ہمارے کچھ لوگ آر ایس ایس اور بالخصوص اندریش کمارکے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بڑے منصبوں تک پہنچ رہے ہیں۔ ابھی پچھلے برس دلی کی ایک یونیورسٹی کی وائس چانسلر پہلے دن اپنے آفس جانے سے پہلے اندریش کمار کے گھر ان کا آشیرواد لینے گئیں اور اندریش نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر ان کو آشیرواد دیا اور یہ تصویر اخبارات میں فوراً شائع کرائی گئی۔'
دہلی میں واقع ایک سرکاری کاؤنسل کے سربراہ علانیہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس ان کو اس عہدے پر لائی ہے اور وہ اسی کے ایجنڈے پر کام کریں گے۔ مذکورہ پروفیسر صاحب بھی دیر سویر اپنی کوششوں میں کامیاب ہو کر کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا کسی دوسرے بڑے منصب تک پہنچ جائیں گے، لیکن سوچئے کہ ان کالی بھیڑوں سے قوم کا کتنا نقصان ہو گا اور انکی وجہ سے آر ایس ایس کو ہمارے صفوں میں گھسنے کا کتنا موقع ملے گا؟ اس تنزلی کا علاج تو میرے پاس نہیں ہے، لیکن میں نے کم از کم مذکورہ پروفیسر کا فون نمبر اپنے موبائل پر بلاک کر دیا ہے۔'