انہوں نے کہا کہ میری پہلی کوشش ہوگی کہ رضا حیدر نے انسٹی ٹیوٹ کے اندر جو خیرسگالی اور ٹیم ورک کا ماحول پیدا کیا اور جس طرح ادب و ثقافت کے اہم ترین لوگوں کو انسٹی ٹیوٹ سے جوڑا وہ سلسلہ بدستور قائم رہے بلکہ اس میں مزید استحکام پیدا ہو۔
میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین جسٹس بدر دریز احمد نواب اعمادالدین پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی تمام ٹرسٹیز اور تمام عملے کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے اس اہم ذمہ داری کے لیے منتخب کیا۔
ڈاکٹر ادریس احمد انسٹی ٹیوٹ کے سب سے سینئر آفیسر ہیں اور انہیں اس ادارے میں کام کرنے کا 34 سال کا تجربہ حاصل ہے ڈاکٹر ادریس احمد کی پیدائش 20 جنوری سنہ 1966 کو مراد آباد کی مردم خیز بستی عمری کلاں میں ہوئی ابتدائی تعلیم وطن میں ہوئی سنہ 1989 میں روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی گھر کا ماحول اور اردو کی محبت کی وجہ سے 2001 میں دہلی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور 2004 میں ایم فل کی سند حاصل کی۔
سنہ 2009 میں اسی یونیورسٹی سے پروفیسر ابن کنول کی زیرنگرانی غالب انسٹی ٹیوٹ کی ادبی خدمات کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر ادریس احمد کے تخلیقی اور تنقیدی مقالات ملک کے معتبر جرائد و اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہے ڈاکٹر ادریس احمد اردو کے علاوہ انگریزی ہندی اور پنجابی زبان اور اس کے ادب سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ ہریانہ اردو اکیڈمی میں بھی انھیں کشمیری لال ذاکر جیسے ادیب کے ساتھ چار سال کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔
سبھی ممبران کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ادریس احمد ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ کام کرنے کا خوشگوار تجربہ ہے وہ ہمارے اور انسٹی ٹیوٹ کے مسائل سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔