قومی دارالحکومت دہلی میں جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر دہلی پولیس ظلم کے پہاڑ برسارہی اسی وقت دہلی پویلیس کے خلاف علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے طلبا جامعہ کے مظلوم طلبا کے ساتھ کھڑے تھے۔
لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ دارالحکومت دہلی میں پولیس نے جو اپنا چہرا دکھایا علیگڑھ میں اترپردیش پولیس کا چہرہ اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہوگا۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا پر اتر پردیش پولیس کے ذریعہ کیے گئے مظالم کی روداد سنارہی ہیبا بتاتی ہیں علیگڑھ کے طلبا جامعہ کے خلاف پولیس کی بربریت پر احتجاج کررہے تھے، جسے اترپردیش پولیس نے ختم کرنے کے لیے جو مظالم ڈھائے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
ہیبا کا کہنا ہے کہ دہلی اور جامعہ میں جو کچھ ہوا پوری دنیا نے اس کو دیکھا، لیکن علیگڑھ میں جو ہوا اس کا کسی کو صحیح سے علم بھی ہوسکا، کیوں کہ وہاں انٹرنیٹ کی سہولت پر پابندی عائد تھی۔
واضح رہے کہ ہیبا نہ صرف علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبہ علم ہیں، بلکہ وہ علیگڑھ کی مقامی شہری بھی ہیں، اس لیے انہیں اس کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں، لیکن وہ دیگر لوگوں تک نہیں پہنچ پارہی اسی لیے وہاں کے حالات کا مکمل اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
خیال رہے کہ 15 دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں مظاہرہ کیا گیا تھا، جس میں طلبا کی پر لاٹھیاں بھی چارج کی گئی تھیں، اور گولی سمیت آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے تھے۔
علی گڑھ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں اے ایم یو میں مظاہرہ کیا گیا تھا، جس میں طلبا کی تحریک کی سوراج پارٹی کے بانی یوگیندر یادو اور گورکھپور آکسیجن سانحہ کے مشہور ڈاکٹر کفیل خان نے حمایت کی تھی۔
اتنا ہی نہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کو امریکہ کی 19 یونیورسٹیز کے سینکڑوں طلبا و طالبات کی حمایت حاصل ہے۔
خیال رہے کہ ہارورڈ، ییل، کولمبیا، سٹینفورڈ سمیت کل 19 یونیورسٹیز کے طلبا نے بھارت میں طلبا پر 'پرتشدد پولیس کارروائی' کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے تھے۔