دہلی میں مقیم غیر ملکی سفارتی برادری شدید فضائی آلودگی سے تشویش میں مبتلا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے آلودگی کی خطرناک حد تک اضافہ ناقابل برداشت ہے۔
ڈپلومیٹک کور کے ڈین جو اس وقت سفر کر رہے ہیں، نے امید ظاہر کی کہ 'اس ہفتے دہلی واپسی کے بعد وزارت خارجہ کے عہدیداروں سے ملاقات کی جائے گی تاکہ وہ اس ماحولیاتی بحران کا حل پیش کر سکیں'۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ڈین فرینک ایچ ڈی کاسٹیلانو نے کہا کہ 'ہم صورتحال کو بہتر بنانے کے طریقوں پر ایم ای اے (وزارت خارجہ) سے تبادلہ خیال کریں گے کیونکہ اس سے نہ صرف دہلی کے باشندے بلکہ پورے ملک کے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں'۔
دہلی میں ماحولیات کی اس صورت حال پر متعدد بیرونی ممالک کے سفیر اور ہائی کمشنروں نے سانس کی دشواریوں اور صحت کے مسائل میں اضافہ سے متعلق تشویش کا اظہار کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ آسیان کے رکن ممالک کے دو سفارت کاروں نے اپنی دہلی کی پوسٹنگ کو وقت سے پہلے ہی ختم کرنے کو مجبور ہوگئے تھے جبکہ کچھ دوسروں نے سال کی چھٹیوں کو آگے بڑھایا تھا۔
تھائی لینڈ کے سفارتخانے نے سنہ 2017 میں اپنی وزارت خارجہ کے دفتر کو خط لکھ کر بھارت میں پوسٹنگ کو مشکلات سے پرُ قرار دیا۔ جبکہ کوسٹا ریکن کی ایلچی ماریلا کروز الوریز کو سانس کی بیماریوں کے بعد اسپتال داخل کرایا گیا تھا۔
اس کے بعد سے دہلی میں غیر ملکی افراد نے اپنے سفارتکاروں اور عملے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔
دہلی میں فرانسیسی سفارتخانے کے ترجمان ریمی تیروتوراورا نے نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے سفارتخانے نے سنہ 2016 ہی سے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس کے احاطے کو صاف کرنے والے آلات سے آراستہ کیا جائے'۔
فرانسیسی سفارتخانے کے ترجمان نے کہا کہ 'گذشتہ ہفتے وزیر ماحولیات آئی ایس اے (بین الاقوامی شمسی اتحاد) کی جنرل اسمبلی کے لیے دہلی میں تھے اور انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خاتمے کے شعبوں میں ہمارے تعاون میں اضافے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر سے ملاقات کی'۔
مزید پڑھیں : دہلی پولیس کمشنر امولیہ پٹنائک کو قانونی نوٹس
اسی طرح چینی سفارت خانہ نے اپنے عملے میں چہرے کے ماسک تقسیم کیا اور اپنی سفارت خانے کے احاطے میں ہر اپارٹمنٹ میں دو ہوا صاف کرنے والی مشینیں بھی نصب کی ہیں۔
تاہم میڈیا سے بات کرتے ہوئے جرمنی کے سفیر والٹر لنڈر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ' رکشہ چلانے والوں، خوانچہ فروشوں سمیت دیگر کمزور طبقات ایئر پیوریفائر کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں جنھیں معاش حاصل کرنے کے لئے سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے'۔