قابل ذکر ہے کہ چھوٹی سی بات پر شروع ہوئے اس معمولی تنازع نے زبردست جھگڑے کا رنگ لے لیا۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرنے لگے جس سے حالات کشیدہ ہوگئے۔
جہاں ایک جانب بجرنگ دل کے کارکنان سڑک پر کھڑے ہو کر نعرے بازی کر رہے تھے وہیں دوسری جانب مسلم نوجوان بھی سڑکوں پر جمع ہونے لگے۔
معاملہ یہ تھا کہ مسلم نوجوان اپنی بائک/اسکوٹی گلی چابک سوار کے باہر کھڑی کر رہا تھا جسے ایک ہندو نوجوان نے منع کیا۔ اسی پر دونوں کے درمیان تنازع ہو گیا۔ اور دونوں ہی اس جھگڑے میں زخمی ہو گئے۔ دونوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اسی درمیان علاقے میں یہ افواہ پھیلی کہ مسلمانوں کے ہجوم نے ہندو کو مارنے کی کوشش کی۔
اس سے ناراض ہو کر لوگ حوض قاضی پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہو گئے۔ جب پولیس اہلکار نے بھیڑ کو تھانہ سے ہٹایا تو کچھ شرپسند عناصر نے لال کیواں کی مندر والی گلی پر پتھر بازی کی جس سے مندر کے اندر کچھ شیشے ٹوٹ گئے۔ رات میں پولیس نے بڑی مستعدی کے ساتھ اس پورے معاملہ کو سمبھالا۔
صبح 11 بجے بجرنگ دل کے کارکنان نے لال کنواں علاقہ میں نعرے بازی کرتے ہوئے مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کی اور فتح پوری مسجد کے اعتراف میں بھی نعرے بازی کی گئی۔ اس کے بعد سے پرانی دہلی میں حالات کشیدہ ہیں۔
اس پورے معاملے پر فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی مکرم احمد نے عوام سے امن اور سکون کے ساتھ رہنے اور اس پورے معاملے کو بات چیت سے ہل کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اپنی تفتیش کرے اور جو قصور وار ہیں انہیں سخت سزا دی جائے۔