کشمیر سے تعلق رکھنے والی 33 سالہ شہزادی فاطمہ ’’ریسٹریکٹیو کارڈیو میوپیتھی‘‘ نام کے عارضے میں مبتلا تھیں، جس کے سبب ان کے قلب میں شدید خرابی پیدا ہوئی تھی۔ اس بیماری کا شکار ہونے والے انسان کے دل کے پٹھے بتدریج سخت ہوجاتے ہیں جس سے جسم میں خون کی ترسیل کا نظام متاثر ہوجاتا ہے۔ طویل وقت تک یہ حالت رہنے کی وجہ سے مریض کی موت بھی ہوجاتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ہارٹ ٹرانسپلانٹ Kashmiri woman’s Heart Transplant in Chennai ہی اس نازک صورتحال کا واحد حل تھا۔
فاطمہ کی صحت بگڑ رہی تھی، لہٰذا انہیں چنئی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور 31 دسمبر 2021 سے اس کا علاج کیا جا رہا تھا۔
دریں اثنا، 26 جنوری 2022 کو تریچی کا ایشوریہ نام کا ایک نجی اسپتال میں داخل ایک نوجوان کا دل عطیہ کرنے کے لیے آگے آیا۔ یہ نوجوان ایک حادثے کا شکار ہوگیا تھا اور داکٹروں نے اسے برین ڈیڈ قرار دیا تھا۔ برین ڈیڈ ہونا ایک ایسی حالت ہے جس میں جسم اور روح کا تعلق برقرار ہوتا ہے لیکن مریض کے دوبارہ زندہ ہونے کے امکانات نہیں ہوتے۔ اس نوجوان کے لواحقین نے انکے دل کو بطور عطیہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے لیے عطیہ کیے گئے دل کو 350 کلومیٹر دور تریچی قصبے سے ’گرین کوریڈور‘ کے ذریعے لاکر فاطمہ کے جسم میں 26 جنوری کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا Kashmiri woman’s Heart Transplant in Chennai۔ معالجین کے مطابق ہارٹ ٹرانسپلانٹ سرجری بالکل کامیاب رہی Tamilian's Heart beats in kashmiri woman's Body اور فاطمہ کی حالت کافی بہتر ہے۔
گرین کوریڈور ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت عطیہ کئے گئے انسانی اعضا۶ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لیجانے کے وقت ٹریفک محکمہ راستے کو گرین رکھتا ہے تاکہ ایمبولینس کو کہیں رکنا نہ پڑے۔
معلوم ہوا ہے کہ فاطمہ کا طبی خرچہ ایک نجی ٹرسٹ نے برداشت کیا جب کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے لیے نجی اسپتال نے بھی کم قیمت پر ہارٹ ٹرانسپلانٹ انجام دیا۔ ایم جی ایم ہیلتھ کیر ترسٹ کی سربراہ چترا وشواناتھن نے کہا کہ انکے لئے 26 جنوری کو یہ ٹرانسپلانٹ کروانا یوم جمہوریہ منانے کا ایک بامعنی راستہ بنا۔
غیر شادی شدہ فاطمہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور انکا بھائی روزانہ اجرت پر کام کرتا ہے۔
ایک ماہ تک ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہنے کے بعد فاطمہ اب ایک نئی زندگی شروع کرنے کے قابل ہوئی ہے۔