ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی تنظیم امن ایجوکیشن سوسائٹی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے اشتراک سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار میں اہل دانش و بینش نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے اپنی تحریروں سے صرف عربی زبان کو ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کا دامن وسیع کیا اور یہ ایسی خدمات ہیں جسے اردو اور عربی زبان کے دانشور کبھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔ Seminar on Literary Services of Maulana Abul Hassan Ali Nadvi
مقررین کا کہنا ہے کہ مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کا شمار ہندوستان ہی نہیں عالمی سطح پر ممتاز عالم دین اور اردو کے اسکالرز میں ہوتا ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی ولادت 5 دسمبر 1913 میں اتر پردیش کے تاریخی شہر رائے بریلی میں ہوئی۔
امن ایجوکیشن سوسائٹی اور قومی کونسل کے مشترکہ بینر تلے بھوپال میں منعقدہ سیمینار کے کنوینر یعقوب صدیقی کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کی قومی کونسل نے ہمیں اس اہم موضوع پر سیمینار کے انعقاد کے لئے مالی تعاون دیا ہے-
انہوں نے مزید کہا کہ علی میاں ندویؒ کی تعلیم و تربیت میں بھوپال کا اہم کردار رہا ہے- علی میاں کے استاد خلیل عرب کا تعلق بھوپال سے ہی تھا اور علی میاں ندویؒ کی حیات و خدمات پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی بھوپال کی ڈاکٹر رفعت سلطان نے لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی- سیمینار کا مقصد یہی ہے کہ نئی نسل کو مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی کی ادبی خدمات سے واقف ہو سکے۔
مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت نے اپنی تحریر و تقریر اور تصانیف سے صرف عربی ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کا دامن وسیع کیا ہے- انہوں نے اردو زبان میں اسلامی علوم کا گرانقدر ادبی سرمایہ ہی تصنیف نہی کیا بلکہ کہ انہوں نے سماجی بیداری اور اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت کے لئے جس زبان کا استعمال کیا وہ اردو ہی ہے- انہوں نے اردو میں فکر کو ایک نیا شعور عطا کیا تھا -
سیمینار میں دانشوروں نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی فکر اور ان کی اردو تصانیف پر اردو زبان میں نئے سرے سے کام کرنے پر زور دیا- آج کے سیمینار میں بھوپال اور دیگر شہروں سے آئے مقالہ نگاروں نے مولانا ابوالحسن ندویؒ پر اپنے مقالے پیش کیے-