عالمی شہرت یافتہ شاعر اور مدھیہ پردیش کی پہچان بنے راحت اندوری کا منگل کو حرکت قلب بند ہو جانے کے سبب اندور کے ایک ہسپتال میں انتقال ہو گیا- کچھ روز قبل ان کی کووڈ 19 رپورٹ مثبت آئی تھی۔ راحت اندوری کا دارالحکومت بھوپال سے خاص رشتہ رہا ہے- یہاں پر وہ شاعروں کے علاوہ سیاستدانوں میں بھی مقبول رہے اور متحدہ سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں میں قومی اور بین الاقوامی مشاعرے میں تواتر کے ساتھ شرکت کی-
دارالحکومت بھوپال کے بھارت بھون میں نومبر 2019 کو 'اسٹیٹ شکھر سمان' کا انعقاد کیا گیا تھا- اس موقع پر مرحوم راحت اندوری نے پچھلی حکومتوں پر سوال کھڑے کیے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اعزازات کو مجھ تک آتے آتے ستر سال لگ گئے- راحت صاحب برملا غلط کو غلط کہا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں انقلابی شخصیت بھی کہا جاتا تھا۔ ہر غلط پر ان کی انگلی اٹھ جاتی تھی اور وہ غلط چیزوں پر برملا تنقید کردیا کرتے تھے۔
شہر کے سینیئر ادیب و شاعر اقبال مسعود نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ راحت اندوری صاحب کا انتقال دنیا بھر میں اردو مشاعروں کے زوال کا سبب بنے گا- یہ آخری محفل تھی مشاعروں کی، ان کے بعد مشاعروں کا معیاراور انداز نیز ادبی حیثیت اس طرح قائم نہیں رہے گی- انہوں نے کہا وہ ایک ایسے شاعر تھے جو حالات حاضرہ پر سچائی کا آئینہ دکھاتے تھے اور مظلوموں کی آواز بلند کرنے والی ان کی شخصیت تھی-
وہیں بھوپال کے سینئر شاعر ضیاء فاروقی نے کہا راحت اندوری کے انتقال سے انہیں انتہائی صدمہ پہنچا ہے۔ راحت اندوری سے دیرینہ تعلقات کو یاد کرتے ہوئے ضیاء فاروقی نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ مجھے ان سے قربت کا موقع ملا ہے۔ وہ اپنا انداز رکھتے تھے ایک بے باک شاعر تھے۔ ان کی رحلت سے اردو زبان و ادب کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اسے مستقبل قریب میں پرُ کرنا مشکل ہے۔