مدھیہ پردیش میں لو جہاد کے خلاف پیش کیا جانے والا ’مذہبی آزادی بل 2021‘ اسمبلی میں صوتی ووٹوں کے ذریعے منظور تو کر لیا گیا لیکن اپوزیشن کے کارکنان نے بل کی دفعات پر اعتراض کیا۔
ریاستی وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اس بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دھوکے میں رکھ کر مذہب تبدیل کرانے والوں کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کی ضرورت تھی اور اس بل میں اسی قسم کے فعل کو روکنے کے لیے اقدام کیے گئے ہیں۔
مذہبی آزادی بل 2021 کے اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد مدھیہ پردیش جمیعت علماء ہند کی جانب سے ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ ایم پی جمیعت علماء ہند کے صدر حاجی محمد ہارون نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ مذہبی آزادی بل اپنے نام کے ہی برعکس ہے کیونکہ اس کے ذریعہ آزادی سلب کی جارہی ہے نا کہ آزادی فراہم کی جارہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آزاد بھارت میں ہر شہری کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا بھی حق دستور ہند سے حاصل ہے، اس کے علاوہ مذہب تبدیل کرنے کی بھی آزادی دیتا ہے، لیکن اس بل کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے والے کو پہلے اجازت لینی ہوگی، جو کہ شہری کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔
ریاستی صدر جمعیت علماء ہند نے کہا کہ اسلام میں مذہب کو تبدیل کرنے کے متعلق کوئی زور اور زبردستی نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص زبردستی مذہب نہیں تبدیل کرتا ہے، انھوں نے کہا کہ لو میں کوئی بھی جہاد نہیں ہوتا ہے اور اگر کوئی بھی تنظیم اس قسم کا کام کرتی ہے تو حکومت کی ایجنسیاں کس لیے قائم کی گئی ہے، یہ صرف جھوٹا پروپگنڈا ہے جس سے صرف اور صرف غریبوں کو پریشانی ہوگی، اس لے تمام جماعت اس بل کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ لفظ جہاد اسلام میں ایک پاکیزہ لفظ ہے جس کے ذریعہ برائیوں کو روکنے اور ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کو لو کے ساتھ اور لڑکیوں کے ساتھ جوڑنا قابل مذمت ہے، اس لیے اس بل کی جمعیت علماء ہند مخالفت کرتی ہے اور حکومت سے اسے جلد سے جلد واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب کو ملک میں آزادی سے رہنے کا حق ہے اور وہ جو چاہے مذہب اختیار کرے اس پر کسی بھی طرح کی پابندی عاد نہیں کرنا چاہیے، پھر وہ ہندو ہو یا پھر مسلمان، انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کے قانون کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خلاف ہم ہمیشہ لڑتے رہیں گے۔