اس جلسے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور حکومت کے ذریعہ نافذ کردہ شہریتی ترمیمی قانون کو ایک کالا قانون قرار دیتے ہوئے قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس احتجاجی اجلاس کا انعقاد راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ لیکن اس میں دیگر پارٹیوں اور سماجی کارکنوں نے بھی شرکت کی۔
کانگریس لیڈر نہال الدین نے بھی عوام سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہریتی ترمیمی قانون ایک طرح سے ہندوستان کے آئین میں گھسپیٹھ ہے اور اس حکومت کی منشاء کسی کو شہریت دینے کے بجائے ملک کو غلام بنانے کی ہے۔
عیدگاہ میدان میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف اکٹھا ہوئے ہزاروں لوگوں کو راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے صدر اور سابق مرکزی وزیر اوپیندر کشواہا کا انتظار تھا جو اپنے مقررہ وقت سے کافی دیر سے پہنچے۔ مودی کی کابینہ میں وزیر رہے اوپندر کشواہا نے کہا کہ مجھے پچھتاوا ہوتا ہے کہ میں نے وزیر اعظم کے ساتھ کبھی کابینہ میں کام کیا۔
انہوں نے کہا کہ شہریتی ترمیم قانون صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں، دلتوں، پچھڑوں کے خلاف بھی ہے، اس لئے کہ جب این آر سی لاگو ہوگا تو زمین دار لوگ تو اپنی شہریت ثابت کر دیں گے لیکن غریب لوگ جن کے پاس کوئی زمین و جائداد نہیں ہے وہ اپنی شہریت کیسے ثابت کریں گے؟
انہوں نے نریندر مودی کے سر عام جھوٹ بولنے پر سخت سرزنش کی۔ انہوں نے ثبوت کے طور پر لوگوں کو امت شاہ اور نریندر مودی کی تقریریں سنوائی جس میں امت شاہ ایوان سے لے کر ٹی وی کو دیے انٹرویوز اور ریلیوں میں کہہ چکے ہیں کہ این آر سی پورے ملک میں لاگو ہوگا، لیکن نریندر مودی کہتے ہیں کہ این آر سی پر کوئی چرچا نہیں ہوئی ہے۔
سیاسی قائدین کے علاوہ مقامی نوجوانوں نے آزادی کے نعرے لگائے، جس سے سماں پرجوش ہو اٹھا۔
اس موقع پر مقامی بچوں اور بچیوں اور خواتین نے بھی اس قانون کے بارے میں اپنی رائے رکھی اور دہلی کے شاہین باغ میں احتجاج میں بیٹھی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ شہریتی ترمیم قانون کے خلاف اس اجلاس کی نظامت جناب صادق صاحب نے فرمائی، اس کے علاوہ وکیل منصور صاحب، سماجی کارکن نوراللہ فوجی، داؤد علی عزیزی، آفتاب عالم، انجینئر ابوالحسن، سینئر صحافی عبد اللہ وغیرہ بھی موجود تھے۔