اس معاملے کے چلتے 21 سالہ نوجوان عبدالرحمن کے علاوہ کئی غریب ملزمین کے گھروں کے حالات افسوسناک رہے، ان کے گھر والوں کی زندگیاں خیرات پر منحصر رہیں۔ ملزم عبدالرحمن کے والد ناصر خان نے بتایا کہ ان کے دو اولاد ہیں، ایک گاؤں میں رہتا ہے اور دوسرا بیٹا عبدالرحمن ہے جو کہ تنہا مزدوری کرکے گھر چلاتا ہے، جب اسی کو گرفتار کرلیا گیا تھا تو ان کے گھر پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس بیچ عبدالرحمن کی والدہ کے آپریشن کے لیے انہیں چندہ کرکے رقم اکٹھا کرنی پڑی تھی۔ اس معاملے کے متعلق عبدالرحمن نے بتایا کہ تشدد کے دوران وہ موقع واردات پر نہیں بلکہ کمرشیل اسٹریٹ پولیس اسٹیشن میں رہے، کہ انہیں کسی پیٹی کیس کے تحت پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا تھا اور انہیں 3 دنوں بعد گرفتار کیا گیا تاہم انہیں واردات کے کسی ویڈیو میں نہیں دیکھا گیا۔
اس سلسلے میں مذکورہ کیس کی پیروی کر رہے ایڈووکیٹ نیاز نے بتایا کہ عبدالرحمن بے قصور ہے اور اسے جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ نیاز نے بتایا کہ ایم ایل اے اکھنڈا سرینواس مورتی کی جانب سے لگاتار آبجیکشنز فائل کیے جارہے تھے تاہم انہیں چوتھی مرتبہ ہائیکورٹ میں بڑی بحث و مباحثہ کے بعد عبدالرحمن کے لیے ضمانت حاصل ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ''بنگلور فرینڈس اینڈ الائنس کا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے''
یاد رہے کہ مقامی رکن اسمبلی اکھنڈا سرینواس مورتی نے اس کیس میں بارہا مرتبہ کہا تھا کہ ان کے گھر کو جلانے میں ان کے حلقے کے باشندوں کا کوئی رول نہیں ہے، لیکن اپنے ہی حلقے کے ملزمین کی رہائی پر روک لگانے کے لیے انہوں نے مختلف کورٹس میں بار بار آبجیکشن پٹیشنز فائل کئے، جس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ اس سے اکھنڈا کا دہرا رویا بے نقاب ہوا ہے۔