بھلے ہی ایل جی انتظامیہ وادیٔ کشمیر کے دور اُفتادہ علاقوں میں بہتر سہولیات فراہم کرنے کے دعوے کر رہی ہے، لیکن ان سب کے باوجود سب ضلع ترال کے کئی پہاڑی دیہاتوں میں بنیادی سہولِیات کی عدم دستیابی Lack of Basic Facilities سے انتظامیہ کے وعدوں کی قَلعی کھل جاتی ہے، اگرچہ انتظامی افسران کے ساتھ ساتھ سیاستدان ترال کے ان علاقوں کا آئے روز دورہ کرتے ہیں، مگر صورتحال میں بہتری کے امکانات ابھی مَعدوم نظر آ رہے ہیں۔
سرینگر سے تقریباً ستر کلومیٹر دور ترال کے درگڈ ستورہ Dragged Village Tral کی دسویں جماعت کے ایک طالب علم عبدالرشید کسانہ نے استعمال شدہ سرینجوں اور چند ٹین کے پرزوں سے ایک جے سی بی مشین کا ماڈل Model of JCB Machine تیار کیا ہے، جس کے باعث اس دور افتادہ علاقے میں رہائش پذیر لوگوں کو امید بندھی ہے کہ شاید اب اس علاقے سے پسماندگی دور ہو جائے گی اور اسی لیے لوگ جوق درجوق اس کے گھر مبارک بادی کے لیے حاضر ہورہے ہیں۔
انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزارنے والے عبدالرشید نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہوں نے اسی سال میٹرک کا امتحان دیا جس کے بعد اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ ایک جے سی بی بنائے۔ رشید کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی اختراعی صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور اس نے کئی ایسی ہی چیزیں بنائی ہیں۔ تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ جے سی بی بنانے کے لیے اس کو درکار ساز وسامان دستیاب نہ ہونے سے اس نے گھریلو سطح پر ہی چیزوں کو استعمال کیا۔
رشید کے مطابق وہ انجینیئر بننا چاہتا ہے۔ اگر اس کو سرکاری سطح پر تعاون ملے وہ آگے چل کر ملک کا نام روشن کر سکتا ہے۔ تاہم فی الوقت وہ انتظامیہ کی جانب سے امداد نہ ملنے پر غمگین ضرور ہے، رشید کے والد غلام قادر کا ماننا ہے کہ اگر اس کے بچے کو، پلیٹ فارم فراہم کیا جائے تو وہ جہاز بھی بنا سکتا ہے اس کا کہنا ہے کہ غریبی کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کو پرواز، نہیں دے رہا ہے اور اسی لیے انتظامیہ کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ والدین کے ساتھ ساتھ رشید کے ہمسایہ بھی اس کے اس ماڈل پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے اس کے ایک ہمسایہ عبدالرحیم نے بتایا کہ ہمیشہ غریب طلباء کے ٹیلنٹ کو مناسب پلیٹ فارم نہ ملنے سے ان کا ٹیلنٹ دفن ہوجاتا ہے اور اگر انتظامیہ اس بچے کو مالی معاونت کرتی تو شاید یہ ملک کے لیے کام کر سکتا ہے، تاہم اب تک ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ بچپن سے ہی خداداد صلاحیت کا مالک ہے اور اس سے قبل بھی اس نے کئی ایسی چیزیں بنائی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ اس مفلوک الحال گوجر طالب علم کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اسے پلیٹ فارم مہیا کرے۔