اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا مرکز میں ایک بار پھر مودی حکومت ہوگی یا کانگریس یا پھر فیڈرل فرنٹ کی سربراہی میں نئی حکومت قائم ہوگی۔
جموں و کشمیر میں کل 6 پارلیمانی سیٹیں ہیں، اس بار ریاست میں یو پی اے کو اکثریت ملتی نظر آرہی ہے کیونکہ اس پارٹی کو 4 سیٹیں ملتی نظرآرہی ہیں گزشتہ انتخابات میں یو پی اے اپنا کھاتا بھی نہیں کھول سکی تھی لیکن اس بار بی جے پی کو صرف دو سیٹیں ملتی نظر آرہی ہیں۔
سنہ 2014 میں بی جے پی نے یہاں سے 3 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، ظاہر ہے کہ یہاں اس پارٹی کو ایک سیٹ کا نقصان ہوسکتا ہے سنہ 2014 میں 3 سیٹیں جیتنے والی محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی کو اس بار ایک بھی سیٹ ملتی نظر نہیں آرہی ہے۔
کس پارٹی کو کتنے ووٹ حاصل ہوئے؟
یوپی کو سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں جموں و کشمیر سے34 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے لیکن اس بار اس کے ووٹوں میں زبردست اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ٹائمس ناؤ-وی ایم آر کے ایگزٹ پول کے مطابق، یو پی اے کو اس بار یہاں 48.92 ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں جو کہ گزشتہ انتخابات سے14.92 فیصد زیادہ ہے۔
جبکہ بی جے پی کو 30.06 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں جو کہ سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات کی مناسبت سے 1.8 فیصد کم ہے۔گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو صوبے جموں سے 32.4 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
جموں و کشمیر میں 5 مراحل میں ہوئے انتخابات
محض 6 سیٹوں والے جموں و کشمیر میں5 مراحل میں انتخابات ہوئے تھے۔ صرف واحد اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر ہی سیکیوریٹی وجوہات کی بنا پر 3 مراحل میں ووٹنگ ہوئی، یہاں مقابلہ بی جے پی، کانگریس، پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے درمیان ہے۔
اگر گزشتہ نتائج کی بات کریں تو بی جے پی نے ریاست میں 6 میں سے تین سیٹوں پرر کامیابی حاصل کی تھی بقیہ 3 سیٹوں پر پی ڈی پی کو فتح حاصل ہوئی تھی۔
بارہمولہ، شری نگر اور اننت ناگ میں پی ڈی پی اور لداخ، ادھمپور اور جموں میں بی جے پی کو جیت ملی تھی۔
حالانکہ شرینگر میں سنہ 2017 میں ہوئے ضمنی انتخاب میں نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ نے پی ڈی پی سے یہ سیٹ چھین لی تھی۔