اس حادثے میں کئی اسکولی بچے شدید طور پر زخمی ہوئے تھے۔ جن میں کچھ بچوں نے اپنی ٹانگیں کھو دی اور کچھ طلبا کو اپنے بازو گنوانے پڑے۔ اُس حادثے میں بیشتر بچےہمیشہ کے لیے جسمانی طور سے ناتواں ہوگئے۔
اگرچہ واقعہ کے فوراً بعد اُس وقت کی حکومت نے مذکورہ علاقے کے لیے ایک پُل کی منظوری دی تھی، تاہم سات سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی اس پُل کا کام پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ جس کی وجہ سے کثیر آبادی کو کئی مشکلات کا سامنا درپیش ہے۔
1200 کمبوں پر مشتمل علاقہ کانڈیوارہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ علاقے کے لوگوں کے آنے اور جانے کے لیے واحد یہی ایک پہاڑی راستہ ہے جہاں سے انہیں ہر روز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گذرنا پڑتا ہے۔ کیوںکہ پہاڑی راستہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہمیشہ پسیاں گرنے کا خطرہ ہوتاہے۔ جبکہ موسم سرما میں علاقے کی گنجان آبادی کئی دنوں تک تحصیل ہیڈ کواٹر سے منقطہ ہو جاتی ہے۔
مقامی لوگوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اذ خود کئی فُٹ بریج تعمیر کیے تھے تاہم نالئہ برینگی کے تیز بہاؤ کے سامنے لکڑی کے وہ پُل ٹِک نہیں پائے، جبکہ کئی بار بہت سے لوگوں کو نالئہ برینگی پار کرتے وقت اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مقامی لوگوں کے مطابق معمولی بارش کے دوران عبور و مرور میں انہیں کافی دشوایوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ برفیلے ایام میں روڑ پر یا لکڑی کے پُل پر پھسلنے کی وجہ سے ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کافی دشوار ثابت ہوتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے جب یہ معاملہ سب ڈویژن وائلو آر اینڈ بی کی نوٹس میں لایا۔ تو وہاں پر موجود اسسٹنٹ ایگزیکیٹیو انجینئر اعجاز احمد شاہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ علاقہ کے لیے پُل کی عمل آوری 2010 میں منظور ہوئی تھی لیکن وہاں مقامی علاقہ میں دو گرپوں درمیان پُل بنانے پر ایک سال تک تنازع جاری رہا جس کے باعث مذکورہ پُل کی تعمیر کرنے کے لیے محکمہ کو ایک سال تک انتظار کرنا پڑا۔
اے ڈبل ای کے مطابق مقامی لوگوں کے افہام تفہیم کے بعد پُل کی تعمیر اگلے سال شروع ہوگئی تھی، تاہم 2014 کے تباہ کن سلاب کے بعد نالئہ برینگی میں پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سی مذکورہ پُل پر مزید چار بلاک بڑھانے پڑے۔ اعجاز احمد نے نمائندے کو یقین دلایا کہ رواں سال کے اکتوبر کے آخری ہفتے میں پُل کو لوگوں کے لیے شروع کیا جائے گا۔