یہ بزرگ شخص پورے صبر و تحمل کے ساتھ چھوٹے چھوٹے گھاس کو جمع کر رہے ہیں۔ یہ بزرگ مووا کرشن مورتی ہیں، ان کی عمر 70 برس سے زیادہ ہے۔
کرشن مورتی آندھرا پردیش کے پراکاشم ضلع کے پرچورو ڈویزن واقع ویرن پالم کے باشندہ ہیں۔ کرشن مورتی کو زراعت میں اپنے والد کی مدد کرنے کے لئے 5 ویں جماعت میں اپنی تعلیم چھوڑنی پڑی تھی۔ تب سے کرشن مورتی کاشتکاری کے اسکول میں سیکھنے والے ایک نئے طالب علم بن گئے۔ انہوں نے مویشیوں کو باندھنے کے لئے رسّیوں کو باندھنا (بانٹنا) شروع کیا اور آہستہ آہستہ گھاس کی رسیوں سے ہنٹر بیلٹ بنانے کے فن میں مہارت حاصل کرلی۔ اسی مہارت سے انہوں نے 70 سال کی عمر میں 6 گز کی ساڑی بنائی ہے۔
مووا کرشن مورتی نے بتایا کہ ''میں نے ابتدا میں گھاس سے 36 انچ لمبے اور 9 انچ چوڑے کپڑے تیار کئے لیکن یہ لوگوں نے نہیں دیکھا۔ اس کے بعد پراکاشم ضلع کے کلکٹر نے مشورہ دیا کہ اسے تھوڑا بڑا بناؤں۔ لہذا میں نے گھاس سے اسکارف بنایا جو 40 انچ لمبا اور 20 انچ چوڑا تھا۔''
کرشنا مورتی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد دنیا کے سامنے بھارت کی فنکاراناہ صلاحیت کو پیش کرنا ہے۔ گھاس پر تجربہ کرتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے اسکارف بنایا۔ وہ اسکارف پر ہی نہیں رکے، اس کے بعد ایک ساڑی تیار کی، جس نے سبھی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ مختلف نمائشی میلے میں بھی اسے پیش کیا گیا جس میں کئی اہم شخصیتوں نے ان کی فنکارانہ مہارت کی بہت تعریف کی ہے۔
مووا کرشن مورتی نے کہا کہ ''میں نے گھاس سے 6 گز کی ساڑی تیار کی ہے۔ میں نے بغیر ٹانکے گھاس سے بلاؤز بنایا۔ میں نے ہینڈ بیگ سمیت بہت ساری چیزیں بھی بنائیں ہیں اور اس کے لئے بہت سے ایوارڈز بھی حاصل کئے ہیں۔ جب بھارت کے صدر مجھے ایوارڈ دے رہے تھے تو مجھے شال سے تہنیت پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت شال کا وزن تقریباً 125 گرام تھا۔''
سب سے پہلے گھاس پانی میں بھگوئی جاتی ہے۔ اس کے بعد نرم تنوں کو پتلے دھاگے کے طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ اس دھاگے کو اس وقت خود سے بنائے گئے لوم جیسے فریم میں بنا جاتا ہے۔ ساڑی کے کنارے کے لئے عام دھاگوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح تیار کیا گیا کپڑا کئی سالوں تک رہتا ہے۔ جب اسے دھوتے ہیں تو اسے سائے میں سکھانا پڑتا ہے۔
کرشن مرتی کی ساڑی پر سخت محنت کے علاوہ ایک روپیہ کا بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یہ ساڑی نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ امریکہ میں بھی مشہور ہے۔ اس فن نے بزرگ کرشن مورتی کو بہت سے ایوارڈ دلائے ہیں۔
مووا کرشن مورتی نے کہا کہ ''میں نے سنا ہے کہ بھارت میں برطانوی حکمراں کے دوران ایک شخص نے ایسی ساڑی بنائی تھی جو مڑنے پر ماچس کے ڈبے میں آجاتی تھی۔ انگریزون نے اس کے ہاتھ کاٹ دئے اور اسے پھر سے لوم کا استعمال کرنے سے روک دیا تاکہ یہ ملک ہمیشہ کے لئے اس طرح کے باصلاحیت شخص سے محروم ہو جائے۔ میں نے اس ساڑی کو پوری دنیا کے سامنے واضح کرنے کے لئے تیار کیا ہے کہ بھارت میں اب بھی عظیم فنکار موجود ہیں۔
کرشن مورتی کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش کا مقصد کاشتکاروں کے لئے احترام کا احساس دلانا ہے جو تمام چھ سیزن میں سخت محنت کرتے ہیں اور تمام لوگوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے زراعت کرتے ہیں۔ مقامی لوگ کرشن مورتی کی صلاحیت کی تعریف کرتے ہیں جو اس عمر میں بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔