بانی درسگاہ سرسید احمد خاں کے 204 ویں یوم پیدائش کے پیش نظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق ڈائریکٹر، اردو اکیڈمی و سابق پی آر او ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ "سرسید احمد خان کی تعلیمات کو سمجھ کر مستقبل کی راہ طے کرنے کی ضرورت ہے۔ بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مشن تھا کہ جو تعلیم کی شمع انہوں نے علی گڑھ میں جلائی اس کی روشنی پورے بھارت اور دنیا میں پھیلے، سر سید کا کہنا تھا کہ تعلیم سستی اور آسان ہو اور ہر کسی کو تعلیم ملے۔
سرسید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو میں دہلی میں ہوئی۔ آپ نے 1875 میں چھ بچوں کے ساتھ مدرسۃ العلوم شروع کیا، 8 جنوری 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی بنیاد رکھی، جس نے 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔ ایم اے او کالج اور آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ 100 سے زیادہ ممالک میں اے ایم یو کا نام روشن کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ "میری نظر میں سرسید احمد خان صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہی بانی نہیں تھے بلکہ وہ ہندوستان میں جدید فکر کے بھی بانی تھے۔
دوسرا ان کا سب سے بڑا کارنامہ 1857 کا ہے۔ اگر 1857 کا انقلاب نہیں ہوتا تو سرسید احمد خان جو ادبی اور علمی کام کررہے تھے شاید اسی پر اکتفار اتفاق کرتے۔ 1857 کے انقلاب نے ایک نیا سرسید پیدا کیا۔ وہ اتنا بڑا سرسید تھا کہ اس نے وقت کے مخالف دھارے کو بدل دیا۔
ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا میں یہ مانتا ہوں اگر سر سید احمد خان 1857 میں، جو انگریزوں کے خلاف نفرت پیدا ہورہی تھی، جو باہمی مفاہمت، بہتر روایت اور مسلمانوں کا صحیح نقطۂ نظر پیش نہیں کرتے تو ہندوستان مسلمانوں کے لئے اسپین بن جاتا۔ وہ کام جو اسپین میں مسلمانوں کے خلاف ہوا وہ ہندوستان میں صرف سرسید احمد خان کی ہی شخصیت تھیں، ان کا ہی دم تھا جو انہوں نے روکا۔
مزید پڑھیں: سرسید احمد خاں کی زندگی کے چند پہلو
ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا کہ میرا یہ ماننا ہے کہ سرسید احمد خان نے 1857 کی بغاوت کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک سیاسی ایجنڈا سیٹ کیا جس سے مسلمانوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اب جب کہ 2021 میں مسلمان سیاسی طور پر بے وزن ہوگئے اور کہیں ان کا وجود نہیں ہے، کہیں ان کی آواز نہیں ہے، تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہیں، معاشی طور پر بھی خوش حال نہیں ہیں اور ہندوستان میں جو فضا ہے رائے عامہ ہے وہ اکثریت کی رائے عامہ مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے۔
سرسید احمد خان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جو تین چیزیں تھیں ایک طرف مسلمان تھے دوسری طرف انگریز تھے اور تیسری طرف ہندو تھے۔ انہوں نے تینوں سے ہی معاملات رکھے۔ ظاہر ہے سر سید مسلم قوم کے، مسلمانوں کے رہنما تھے حالانکہ اس وقت کچھ لوگوں نے سر سید کو تسلیم نہیں کیا۔ سرسید کی سوچ کی مخالفت کی لیکن سر سید احمد خان نے کہا کہ وقت سب کو سکھا دیتا ہے، وہ لوگ جو اس وقت سر سید احمد خاں کے خلاف فتوے جاری کررہے تھے، کافر کہہ رہے تھے، آج انہیں کی اولادیں اور ان کے ادارے سرسید احمد خان کو محسن قرار دے رہے ہیں۔ تو کسی بھی شخصیت کا بڑا کارنامہ جب سامنے آتا ہے۔ سو یا دو سو سال بعد اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علی گڑھ تحریک کو آگے بڑھانا جشن یوم سر سید ہے: محمد شاہد
ملک بھرمیں مسلمانوں کی قیادت کمزور ہوتی جارہی: اسدالدین اویسی
ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا "سرسید احمد خاں کے 204ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ سر سید احمد خان کی اور ان کے ویژن کی اہمیت اور معنویت باقی ہے یا ختم ہوگئی؟ میں سمجھتا ہوں جیسے جیسے وقت گزرے گا سرسید اور ان کی تحریک کی معنویت میں اضافہ ہوگا۔ اب نئی تشریحات سامنے آرہی ہیں نئے ایشو سامنے آرہے ہیں تو ہمیں اسی پس منظر میں سر سید کی تعلیمات کو سمجھنا چاہیے اور اس سے اپنے مستقبل کی راہ طے کرنی چاہئے۔"
بانی درسگاہ سرسید احمد خاں کے 204ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہمیں سرسید احمد خان کی تعلیمات کو سمجھ کر اپنے مستقل کی راہ طے کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے ویژن و مشن کی معنویت باقی ہے یا نہیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔