علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ اور طلبہ رہنماؤں نے یونیورسٹی ڈک پوائنٹ سے باب سید تک احتجاجی مارچ نکال کر صدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم یونیورسٹی پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی کو دیا۔ طلبہ نے اس میمورنڈم میں الطاف کو انصاف کے لیے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کے دوران اترپردیش حکومت اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حراست میں مسلمانوں کی اموات کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یوگی حکومت ریاست سے غنڈہ گردی اور جرائم کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اب لگتا ہے کہ تمام مجرمین نے خاکی وردی پہن لی ہے جو معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو نشانے ہوئے حراست میں ان کا قتل کیا جارہا ہے۔
طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے کاس گنج پولیس کے اعلیٰ عہدیداران نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ الطاف نے بیت الخلا میں جا کر پانی کی ٹوٹی سے خودکشی کرلی جو سراسر جھوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو فٹ اونچی پانی کی ٹوٹی سے پانچ فٹ سے زیادہ کا نوجوان کس طرح خودکشی کر سکتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’الطاف خودکشی کیوں کرے گا۔'
انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ پولیس اپنے آپ کو بچانے کے لیے جھوٹ بول رہی ہے جس کے لیے ہم صدر جمہوریہ سے پورے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ الطاف کو انصاف مل سکے اور اس کو مارنے والوں کو سزا ملے۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈر اور خوف کا ماحول ہے۔ مستقل مسلمانوں اور بے گناہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے الطاف کے خاندان کو 50 لاکھ روپے کا معاوضہ اور ایک سرکاری نوکری کے علاوے پورے معاملے کی جوڈیشنل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: الطاف کی موت کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ
طلبہ رہنماؤں نے کہا کہ الطاف معاملہ میں فوری طور پر جوڈیشل انکوائری نہیں کرائی گئی تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جائے گا۔
طلبہ نے صدر جمہوریہ سے مطالبہ کیا:
- الطاف معاملے کی جوڈیشل انکوائری
- پچاس لاکھ روپے کا معاوضہ
- ایک سرکاری نوکری