کہا جاتا ہے کہ انسان ان کی پیدائش اس لئے ہوتی ہے کہ وہ بہتر زندگی جیتے ہوئے اپنے آس پاس کے لوگوں کی زندگی کو اور بھی بہتر بنا سکے۔ جس کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کے متعدد سیاح نے اپنے اپنے دور میں کوششیں کیں۔ ان ہی میں سے ایک ریاست گجرات کے شہر احمدآبادسے تعلق رکھنے والے طاہر مدراس والا ہیں۔ طاہر مدراس والا اپنی زندگی کے بیشتر اوقات سائیکل سے پوری دنیا گھوم کر لوگوں کے درمیان امن اور بھائی چارے کا پیغام دینے میں صرف کیا۔
طاہر مدارس والا کی پیدائش 12 ستمبر 1962 میں احمدآباد میں ہوئی تھی۔ غریب گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے طاہر کو اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں کچھ نہیں ملا لیکن اپنے عزم اور حوصلہ کو کم نہیں ہونے دیا۔
18 سال کی عمر میں طاہر نے اپنا گھر چھوڑا اور امن کا پیغام پوری دنیا میں پھیلانے کے لئے لئے نکل پڑے۔ اپنی جرمنی کے سفر کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ 9 اکتوبر 1981 کومیں نے امن کا پیغام دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے ایک سایئکل لے کر نکلا.اس وقت میرے ایک دوست نے مجھے 385 روپے کی سائیکل خرید کر دیا۔ سب سے پہلے چار سال تک میں نے بھارت کے مختلف حصوں میں گھوم کر انسانیت کی لو جلانے کا کام کیا. اور ہندوستان کا سفر طے کرنے کے بعد پوری دنیا کا سفر کرنے کا ارادہ بنایا۔
امن و امان قائم کرنے کے لئے پوری دنیا کا سفر طے کرنے والے طاہر مدراس والا نے دنیا کے مختلف ممالک خاص طور سے افریقہ، ایشیا، آسٹریلیا، پیسفیک آئرلینڈ، ہانگ کانگ، چائنا، جاپان، امریکہ، کینیڈا، تک کا سفر کیا۔ اور تقریبا سوا لاکھ کلو میٹرکی مسافت سائیکل سے طے کیا۔انہوں نے کہا کہ میں جہاں بھی گیا وہاں کالجیز اور یونیورسیٹیز میں امن کا پیغام پہنچاتارہا۔
طاہر مدراس والا کو سائیکل سے پوری دنیا گھومنے کے دوران کئی تلخ تجربات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اور امن کے لیے پوری دنیا کے گوشے گوشے میں گھومتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ سفر کے دوران پانچ دفعہ میں موت کے منہ سے باہر نکلا ۔متعدد مرتبہ ایکسیڈنٹ ہوا۔ کئی بار گن پوائنٹ پر بھی مجھے رکھا گیا۔ تین بار جیل بھی گیا اور ایک بار کے شیر سے بھی سامنا ہوا تھا. لیکن میں کبھی نہیں ڈرا۔ اور اپنے جذبے اور حوصلے کو برقرار رکھا
طاہر مدراس والا نے 9181 سے 20 دسمبر 1997 یعنی 17 سال تک پوری دنیا کا سفر سائیکل پر کیا. لیکن جب وہ ہندوستان واپس آے تو ان کی امید کے بر خلاف مایوسی کا سامنا کرنا پڑا.
طاہر مدراس والا کا کہنا ہے کہ میں سوا لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ اور جس وقت میں ہندوستان آیا تو مجھے امید تھی کہ ہندوستان آنے کے بعد یہاں کی حکومت مجھے ایوارڈ سے نوازے گی۔ حکومت کی جانب ےس رہنے کے لئے مکان ملے گا۔پینشن ملےگی ۔ یا کسی سایئکل کی کمپنی مجھے برانڈ ایمبیسیڈر بنائے گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ملا۔ اس کے بعد پانچ سال میری زندگی پریشانیوں میں گذری۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اس کے بعد میں نے کورین تھراپی کے بارے میں ٹریننگ لے اور ٹریٹمنٹ دینا شروع کیا. اور اب بھی یہ کام جاری ہے.
تقریباً 32 ممالک کا طاہر مدراس والا نے سفر کیا۔اس دوران انہیں ا کینیڈین وزیر اعظم کی طرف سے شہریت کی پیشکشیں کی گئی لیکن ہندوستان کی محبت کو دیکھتے ہوے انہوں نے شہریت حاصل کرنے سے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ سائیکل پر دنیا کا سفر طے کرنے پر انہیں بہت سے ایوارڈ سے نوازاگیا۔ خاص طور سے شور ویر ایوارڈ، پیس ایوارڈ،یونایئٹیڈ نیشن کی طرف سے ایوارڈ، ہیومن رایئٹس کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔اس کے علاوہ ایمبیسیٹر فار پیس کا لقب دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب میں بھارت واپس آیا تب میں نے سوچا کے یہاں کی حکومت بھی ایوارڈ سے نوازے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا. مجھے پدم شری ایوارڈ، ارجن ایوارڈ سے نوازا جاسکتا تھا ۔ان کے مطابق 2005 میں ٹینجنگ ایوارڈ اور ارجن ایوارڈ کے لیے نامزد بھی کیا گیا تھا لیکن یہ ایوارڈ نہیں دیا گیا۔
مزید پڑھیں:احمد آباد: نان ویج پر پابندی کے خلاف ایم آئی ایم کا احتجاج
پدم شری کے لیے بھی 2 بار میرا نام گیا لیکن وہ ایوارڈ بھی مجھے نہیں دیا گیا۔لیکن میں نے ابھی بھی امید نہیں چھوڑی ہے۔
سایئکل پر پوری دنیا گھوم کر ورلڈ ریکارڈ بنانے والے طاہر مدراس والا آج بھی امن قائم کرنے کے لئے مختلف تھیم کےتحت کام کر رہے ہیں۔