ریاست گجرات کا تاریخی شہر احمدآباد جسکی بنیاد رکھنے والے چار بزرگوں میں سے ایک بزرگ حضرت شیخ احمد کھٹو گنج بخش بھی ہیں، جن کا مقبرہ سرخیز روضہ کے نام سےمشہور ہے۔
پندرہویں صدی میں محمود بیگڑا نے اس مقبرے کے آس پاس ایک محل اور درمیان میں ایک جھیل بنوایا تھا۔
اس جھیل کو عام طور سے سرخیز تالاب کے نام سے پہچانا جاتا ہے،اس زمانے میں اس جھیل سے اطراف کے لوگوں کو پانی مہیا ہوتا تھا، لیکن آج منظر بالکل بدل گیا ہے۔
واضح رہے کہ ا ب اس جھیل میں صاف پانی کی بجائے گندہ پانی بھر گیا ہے، اس معاملے پر سرخیز کی میونسپل کاؤنسلر نفیسہ انصاری کا کہنا ہے کہ اس تالاب کے کنارے موجود بڑی بڑی عمارتوں کا گندہ پانی سنگھوڑا تالاب میں چھوڑا جاتا ہے، اور یہی گندہ پانی آگے چل کر سرخیز جھیل میں مل جاتا ہے جس سے پورے تالاب کا پانی گندہ ہوچکا ہے۔
تالاب میں گندے پانی کے بھر جانے سے سرخیز روضہ کی بے حد خوبصورت عمارت کو تالاب میں موجود ڈرینیج اورایسڈ کے پانی سے کافی نقصان ہو رہا ہے۔
گندے پانی سے عمارت کی اینٹیں خراب ہو کر ٹوٹ رہی ہیں، جس سے عمارت کی بنیاد کو بھی خطرا لاحق ہوسکتا ہے۔وہیں عمارت کے ساتھ ساتھ اس گندے پانی سے مقامی لوگوں کو بھی کافی پریشانیاں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق گندے پانی سے یہاں کے لوگ بیماری کا شکار ہوتے ہیں بدبو اتنی خراب آتی ہے کہ لوگوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے، اس تالاب کا پانی کسی بھی طرح استعمال کرنے کے لائق نہیں بچاہے۔
مچھروں کا قہر ہر وقت جاری رہتا ہے اس تالاب کی صفائی کے بارے میں ہارہا حکومت کو درخواست دینے کے باوجود اب تک کس طرح کا دھیان مرکوز نہیں گیا گیا۔
پوری دنیا سے لوگ اس سرخیز روضہ کی زیارت کو آتے ہیں لیکن جب وہ اس تالاب کو دیکھتے ہیں تو انہیں افسوس ہوتا ہے، جسکی وجہ سےحکومت پر سوال اٹھتا ہے، ایسے میں کانگریس رہنما حاجی اسرار بیگ مرزا نے بتایا کہ سرخیز روضہ کمیٹی اور احمدآباد میونسپل کارپوریشن نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہاں ٹریٹمنٹ پلان ڈالنےکا فیصلہ لیا ہے لیکن اب تک وہ کام بھی شروع نہیں ہوا۔
مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس تالاب میں حکومت کو صاف ستھرےنرمدہ کا پانی جوڑنا چاہئے تاکہ اس تالاب میں صاف پانی جمع ہو، اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اور اسکی وجہ سے زیادہ سے زیادہ سیاح یہاں گھومنے آنے میں دلچسپی دکھا سکیں۔