احمدآباد کے تاریخی بازار تین دروازہ بھدر قلع بازار، جو اتوار کے علاوہ کبھی بند نہیں ہوئے، یہاں کی تاریخی درگاہ، تاریخی مساجد جہاں سحر افطار کی پر کشش رونقیں دکھائی دیتی تھیں، وہ آج پوری طرح ویران نظر آرہی ہیں۔ ان سڑکوں پر اب لوگ چلنے سے بھی ڈر رہے ہیں، مساجد کے دروازے بند ہیں بازار سنسان ہیں۔
اس تعلق سے ایک مقامی شخص محمد ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ ایسا رمضان پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا، اس طرح سڑکوں کی حالت ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ کیا یہ سڑکیں جہاں پر پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی جہاں ہم گاڑی چلاتے تھک جاتے تھے، ٹریفک کا مسئلہ جہاں ہر وقت ستاتا تھا آج وہاں ایک پرندہ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ لوگ گھروں میں ہیں اور پولیس کے ڈر کی وجہ سے لوگ باہر نہیں نکل رہے ہیں، حالت ایسی ہوگئی ہے کہ کھانے پینے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ رمضان میں پہلی بار ہم نے کسی چیز کی خریداری نہیں کی، بچے کو کوئی کپڑے نہیں دلائے، بازاروں میں نہیں گئے۔
ذاکر نے بتایا کہ پورے مہینے ہم گھر میں رہے گھر میں ہی عبادت کی، مساجد بھی بند تھی اور اب تو عید پر بھی گھر میں ہی نماز ادا کرنی ہوگی۔ ہم سادگی سے عید بھی منانے والے ہیں۔
ایسے میں احمدآباد کو دو حصوں میں تقسیم کر مغربی علاقوں میں پوری طرح رعایت دے دی گئی ہے، لیکن مشرقی علاقے اب بھی پوری طرح بند ہیں کیونکہ یہاں بڑی تعداد میں کنٹینمنٹ زون علاقے ہیں اور کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض یہیں پائے گئے ہیں۔
کنٹینمنٹ علاقے کی رہنے والی ایک خاتون مہرالنسا کا کہنا ہے کہ اس رمضان میں انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اب عید بھی آنے والی ہے اور جیب خالی ہے، دھندے روزگار بند ہیں، جائیں تو جائیں کہاں؟
کورونا وائرس کی وجہ سے بھلے ہی سڑکیں سنسان ہیں، گاڑیوں کے پہیے تھم چکے ہیں، کاروبار بند ہے لیکن اب زندگی میں ایک نیا انقلاب آیا ہے کیونکہ اب کورونا کے ساتھ ہی جینا ہے کورونا کو شکست دینا ہے اور اپنی زندگی بھی خوشحال بنانا ہے۔