دراصل دسمبر 2019 میں شہریت ترمیم بل پاس ہونے کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور دہلی میں شاہین باغ کی طرز پر پورے ملک میں سی اے اے، این آر سی کے خلاف مسلم خواتین نے احتجاجی مظاہرے کیے، جس کے تحت احمدآباد کے اجیت میل میں 14 جنوری 2020 سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔
احمدآباد میں کلیم صدیقی نے اس مظاہرے کی شروعات کی اور بڑی تعداد میں مسلم خواتین نے اس مظاہرے میں حصہ لے کر سی اے اے این آر سی کے خلاف آواز بلند کی۔ مسلسل دو ماہ تک مظاہرہ جاری رہا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا۔
اس معاملے کے بعد سماجی کارکن کلیم صدیقی کو احمدآباد کی پولیس نے ضلع بدر کرنے کا حکم دے دیا۔ اس تعلق سے کلیم صدیقی نے کہا کہ جون 2020 میں پولس نے فرضی کہانی بناکر مجھے تڑی پار کا حکم دے دیا، جس کا ٹرائل چلا اور معاملہ گجرات ہائی کورٹ پہنچا اور26 اگست 2021 کو گجرات ہائی نے اس معاملے کو سن کر کورٹ نے صاف طور پر کہا کہ" کوئی بھی انسان کسی بھی حکومت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے یا سی اے این آر سی کے خلاف تحریک میں کوئی آواز بلند کرتا ہے تو ایسے شخص کو آپ ضلع بدر نہیں کرسکتے۔ یہ جمہوریت میں شہری کا حق ہے۔
اس حکم کے بعد پولس کے ضلع بدر کے آرڈر کوخارج کیا گیا، جس کے بعد لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی اور احمدآباد جے جوہاپورا میں ہماری آواز تنظیم کی جانب سے کلیم صدیقی کا استقبال کیا گیا۔ جس میں سی اے اے این آر سی کی لڑائی لڑنے والے سماجی کارکنان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
مزید پڑھیں:آحمد آباد: زردوزی آرٹسٹ شاہد انصاری کی انوکھی پہل
وہیں کلیم صدیقی کو ضلع بدر سے راحت دلانے کے لیے محنت کرنے والے دریاپور کے رکن اسمبلی غیاث الدین نے کہا کہ کلیم صدیقی نے جس طریقے سے احمدآباد میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ بنایا تھا اور اس میں ہندو مسلم تمام برادری کے لوگ شامل ہوئے۔ یہ حکومت کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا تو سرکار نے کلیم صدیقی کو ٹارگیٹ کر تڑی پار کردیا۔ اور جب یہ معاملہ گجرات ہائی پہنچا اور گجرات ہائی کورٹ نے اس معاملے پر کہا کہ سرکار کے خلاف اور آئین کو بچانے کی لڑائی کے لیے کوئی بھی اپنی آواز کو اٹھاسکتا ہے۔ اس بنیاد پر ان کو ضلع بدر نہیں کرسکتے۔ یہ ہائی کورٹ کا بہت اچھا فیصلہ تھا۔ کلیم صدیقی کا کام قابل تعریف تھا اس لیے انہیں راحت ملی۔