اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت دیگر عالمی قرض دہندگان کے اندازوں اور پیش گوئیوں کے مطابق، پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی بحران، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ، ملک کے لیے مالیاتی بحران کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی پیشن گوئی کو کم کر کے 0.5 فیصد کر دیا ہے۔ ساتھ ہی دو برسوں کے لیے افراط زر 20 فیصد سے زیادہ رہنے کی پیشن گوئی کی ہے۔ یہ اندازے سنگین مالی مشکلات کو ظاہر کرتی ہیں۔
آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں شرح سود اپنی بلند ترین سطح پر رہنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ نے رواں مالی برس کے لیے پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ خسارہ (ادائیگیوں کا عدم توازن) رواں مالی سال کے دوران 2.3 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جو گزشتہ مالی برس میں 4.6 فیصد تھی، تاہم آئندہ مالی برس 2023-24 میں 2.4 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کی پیشن گوئی کے مطابق اگلے مالی برس 2023-24 کے لیے اوسط مہنگائی کم از کم 21.9 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے، جو آٹھ ماہ قبل کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی بلند شرح کے تخمینے اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ موجودہ حکمران حکومت اگر آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ شرح سود میں کمی کا فائدہ نہیں اٹھائے گی۔
اقتصادی ماہر خرم شہزاد نے کہا کہ ملک کا مرکزی بینک پہلے ہی شرح سود میں 21 فیصد اضافہ کر چکا ہے۔ اگر اسے افراط زر کے لیے ایڈجسٹ کیا جائے تو یہ اعداد و شمار پھر بھی منفی ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اسے سعودی عرب سے کم از کم 2 بلین ڈالر کی فنانسنگ کی یقین دہانی ملی ہے اور وہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے مزید 1 بلین ڈالر کے قرض کی تصدیق کا منتظر ہے۔ تاہم یقین دہانیوں کے بعد بھی کم از کم $3 بلین کا فرق اب بھی باقی ہے۔
مزید پڑھیں: