ETV Bharat / business

یس بینک کا بحران، کیا اسے ٹالا جا سکتا تھا؟

انسٹی ٹیوٹ آف انشورنس اینڈ رِسک مینیجمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے یس بینک کے بحران پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ' ان بینکوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کیا اس خطرے کو قبل از وقت ٹالا جا سکتا تھا اور صارفین کی رقومات کے ساتھ کیا ہوگا۔ پڑھیں پورا مضمون۔

یس بینک کابحران، کیا اسے ٹالا جاسکتا تھا؟
یس بینک کابحران، کیا اسے ٹالا جاسکتا تھا؟
author img

By

Published : Mar 10, 2020, 7:21 PM IST

ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے یس بینک پر سرمایہ بڑھانے میں ناکامی اور اثاثوں کے بگڑتے ہوئے معیار اور دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے عارضی پابندی عائد کرنا یس بینک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ بینک سے رقم نکالنے کی حد مقرر کرنے اور ادارے کے کام کاج میں رکاوٹ کے عارضی اقدامات سے گاہکوں کو تکلیف تو ہوگی ہی ساتھ میں عوام کا اعتماد نجی بینکوں پر اٹھنے کی صورت میں ایک بہت بڑا نقصان ہوگا۔ اس بینک کے گاہکوں کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے پابندی کے دوران محض پچاس ہزار روپے کی رقم نکالنے کی حد مقرر کرنا بے کار ہے۔

بچت کھاتوں پر اعلیٰ شرح پر ملنے والی سود کی کشش اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مربوط دیگر اختراعی چیزیں کئی نوجوانوں کو یس بنک کے جال میں لے آئی تھی لہٰذا اس طرح کی پابندی (جیسے کہ یس بنک پر لگائی گئی ہے) سے سوشل میڈیا پر جو ہنگامہ مچ رہا ہے اس سے مالی نظام کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔جو کچھ ہوا ہے اسکے انجام کے بطور یس بینک کے حصص کی قیمت تیزی کے ساتھ 85فیصد تک لڑھک گئی ہے اور یوں لاکھوں سرمایہ کاروں کو زبردست نقصان ہوا ہے۔اس سب سے فقط یس بینک کے متعلقین کا ہی نقصان نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے دیگر اداروں کے سرمایہ کاروں کا تاثر بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔

اثاثوں کے معیار کی گڑ بڑ، سرمایہ کی وافر مقدار کے تناسب یا کیپٹل ایڈیکیسی ریشو(سی اے آر)کے تنزل اور کاروبار سنبھالنے کے طریقے کی خامیاں ضوابط کار نظروں میں آنے سے بچ نکلی ہیں باالخصوص ایسے میں جب آر بی آئی کی جانب سے 'رِسک بیسڈ سپروائزری' کا نظام استعمال کیا جارہا ہے۔اگر سرمایہ کا بحران اور لیکویڈیٹی پر دباؤ ہی بینک کے خلاف کی گئی کارروائی کی فوری وجہ ہے تو ایک بچاؤ کارروائی اس ادارے کی موجودہ پریشانی سے بچاسکتی تھی جو باالآخر نجی بینکوں کی اعتباریت کو کھا جاتی ہے۔

یس بینک سنہ 2004میں معرضِ وجود میں آکر ملک میں چوتھے بڑے بینک کے بطور ابھرا ۔پیشہ وروں کے ذریعہ چلایا جانے والا یہ بینک رفتار پکڑ کر 15سال کے مختصر عرصہ میں 3.62لاکھ کروڑ روپے کے اثاثوں تک پہنچ گیا جبکہ مارچ سنہ 2019تک اس نے 15.7فیصد کا سی اے آر بنائے رکھا۔مجموعی نان پرفارمنگ ایسٹ (این پی آر) 7.39 اور خالص این پی آر4.35فیصد تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ نشانیاں تشویشناک نہیں تھیں بلکہ ضابطہ کار کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کیلئے انہیں بہتر کیا جاسکتا تھا۔لیکن داخلی پیمانوں میں بعض دیگر اہم کمزوریاں ہوسکتی ہیں جنہوں نے معاملے کی نزاکت کو نہ سمجھ کر اسے بڑھاوا دیا جس کے نتیجے میں بینک کو اس گھنونی صورتحال سے دو چار ہونا پڑرہا ہے۔

ملک کی 28 ریاستوں اور 9 مرکز کے زیرانتظام ریاستوں (یونین ٹریٹریوں) میں قریب 1000 شاخوں اور 1800 اے ٹی ایم مشینوں کے ساتھ پھیلا یس بینک مارچ سنہ 2019تک 2.27لاکھ کروڑروپے کے ڈیپازٹ اور2.64 لاکھ کروڑ روپے کے ایڈوانس کے ساتھ لاکھوں ' اَپ اینڈ/ہائی نیٹ' افراد کی خدمت کررہا تھا۔

ستمبر 2019میں ڈیپازٹ 2.09لاکھ کروڑ روپے تک لڑھک گیا جس سے لیکویڈیٹی پر دباؤ بڑھ گیا اور پھر یہ رجحان رُکنے سے رہ گیا۔ظاہری طور پر ایسا اچھا بینک فورا تنگدستی کا شکار ہوگیا یہاں تک کہ اسکے خلاف کارروائی ہوئی۔یہ گڑبڑ شاید اتنا تیز اور فوری تھا کہ آر بی آئی فوری اصلاحی کارروائی (پی سی اے) ضابطہ کار کے ہتھیار کا استعمال ہی نہیں کر سکا، جس سے (بینک میں)اصلاحی اقدامات شروع ہوسکتے تھے۔

عام طور پر چار شرائط کے پورا ہونے (یعنی سرمایہ 10.875فیصد کے نشانہ سے نیچے ہو، خالص این پی اے6 فیصد سے اوپر ہو، لگاتار دو سہ ماہی کوارٹروں میں اثاثوں پر ریٹرن منفی رہا ہو اور ہائی لیوریج ریشو4.5فیصد سے زیادہ ہو) پر آر بی آئی کی جانب سے پی سی اے کا استعمال کیا جاتا ہے۔فی الوقت پبلک سیکٹر کے چار بینک، یونائیٹڈ بینک، سنٹرل بینک، آئی او بی،یوسی او بینک، آئی ڈی بی آئی بینک اور لکشمی ولاس بینک، پی سی اے کے تحت کام کررہے ہیں۔

خطرے کی گھنٹی

یس بینک کی پریشانی کی گھنٹی تب بجی جب کوئی بھی سرمایہ کار بینک کے منافع سرمایہ کرنے میں ناکام رہی، وہیں بینک مارچ 2019 میں 3 ہزار 277 کروڑ روپے کا این پی اے رپورٹ ہی نہیں کرپائی تھی۔ اس کے علاوہ جب آر بی آئی نے یس بینک کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اور سی او رانا کپور کی مدت کار میں توسیع کرنے سے انکار کردیا تھا، لیکن اس وقت بھی خطرے کی گھنٹی لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچ پائی تھی ۔وہیں اس کے بعد بجب رانا نے ستمبر 2019 میں بینک کا 55.2 ملین کا شیئر بیچ دیا تھا، حالانکہ تب بینک کے حالات اس وقت اتنے بدتر نہیں تھے۔

بعدازاں موڈی انوسٹر سروس نے دسمبر2019میں بڑھتے ہوئے زیرِ دباؤ اثاثوں اورکم نقصان جذب کرنے والے بفر و دیگر چیزوں کی وجہ سے بینک کی کریڈٹ ریٹنگ گھٹا دی جس سے بینک کی سالونسی یعنی قرض ادا کرنے کی حیثیت میں مزید بگاڑ اور خطرات کی نشاندہی ہوگئی تھی۔

ممکنہ خراب اثاثوں کے ساتھ کارپوریٹ گورننس کی کمزور حکمت عملی، کمزور نظامی کنٹرول اور بورڈ کی آزادی اور بیلنس شیٹ نے آپریشنل رسک اور ناکافی نظامی کنٹرول کی نشاندہی پہلے کی کردی تھی جب بینک کی انتظامیہ نے مفادِ خصوصی کے ساتھ کام کرنے کا انتخاب کیا تو جانچ پڑتال (آڈِٹ)کا سارا نظام ہی بگڑ گیا۔ ویسے بھی جب نئی نسل کے نجی بینکوں کی کارکردگی کو ایک نمونہ کے طور پر بتایا جاتا ہے تو اکثر اس سیکٹر میں جاری ناکامی چُھپ سی جاتی ہے۔

یس بینک کو اس ناکامی سے آگے بڑھنے کے لیے نئے راستے

یس بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرس کو معطل کرکے اسکی جگہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو اختیار دے دیا گیا ہے، جو یس بینک میں 5000کروڑ روپے کا سرمایہ کرنے والا ہے۔ نئی انتظامیہ کی اس تجویز کے ساتھ تشکیلِ نو سنہ 2020کی پالیسی اسے(یس بنک کو)واپس پٹری پر لا سکتی ہے۔

یس بینک کی موجودہ حالت سے خوف زدہ ڈیپازیٹروں کو اس بات سے کچھ راحت تو ہے کہ انکی جمع رقم محفوظ رہے گی اور انکی مشکل 4اپریل 2020کے بعد سے ختم ہوجائے گی۔

لیکن اگر گاہکوں نے پہلے ہی خود احتسابی سے کام لیتے ہوئے وقت پر مداخلت کرلیتے تو بینک میں ضابطوں کی پاسداری لازمی ہوجاتی اور ہم اس موجودہ صورتحال سے بچ سکتے تھے۔لیکن جب اب حکومت اور آر بی آئی نے بینک کو اپنے اختیار میں لے لیا ہے، اب انکی اہلیت پر انحصار کرے گا کہ وہ تشکیل نو اسکیم کو اب مناسب طریقے سے نافذ کرے تاکہ صارفین کی ذہنی مشکلات کچھ حد تک ختم ہوسکے۔

گھریلو اور بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کا مالیاتی نظام پر دوبارہ اعتماد بحال کرنا کافی نازک معاملہ ہے، اور ایسی صورت حال میں جب ملک معاشی مندی کا شکار ہو اور جبکہ اس تعلق سے متعدد خبریں گردش کررہی تھی لیکن صارفین اس خطرے کی گھنٹی سے بے خبر تھے۔

مصنف انسٹی ٹیوٹ آف انشورنس اینڈ رِسک منیجمنٹ، آئی آئی آر ایم حیدرآباد میں ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں.

ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے یس بینک پر سرمایہ بڑھانے میں ناکامی اور اثاثوں کے بگڑتے ہوئے معیار اور دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے عارضی پابندی عائد کرنا یس بینک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ بینک سے رقم نکالنے کی حد مقرر کرنے اور ادارے کے کام کاج میں رکاوٹ کے عارضی اقدامات سے گاہکوں کو تکلیف تو ہوگی ہی ساتھ میں عوام کا اعتماد نجی بینکوں پر اٹھنے کی صورت میں ایک بہت بڑا نقصان ہوگا۔ اس بینک کے گاہکوں کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے پابندی کے دوران محض پچاس ہزار روپے کی رقم نکالنے کی حد مقرر کرنا بے کار ہے۔

بچت کھاتوں پر اعلیٰ شرح پر ملنے والی سود کی کشش اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مربوط دیگر اختراعی چیزیں کئی نوجوانوں کو یس بنک کے جال میں لے آئی تھی لہٰذا اس طرح کی پابندی (جیسے کہ یس بنک پر لگائی گئی ہے) سے سوشل میڈیا پر جو ہنگامہ مچ رہا ہے اس سے مالی نظام کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔جو کچھ ہوا ہے اسکے انجام کے بطور یس بینک کے حصص کی قیمت تیزی کے ساتھ 85فیصد تک لڑھک گئی ہے اور یوں لاکھوں سرمایہ کاروں کو زبردست نقصان ہوا ہے۔اس سب سے فقط یس بینک کے متعلقین کا ہی نقصان نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے دیگر اداروں کے سرمایہ کاروں کا تاثر بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔

اثاثوں کے معیار کی گڑ بڑ، سرمایہ کی وافر مقدار کے تناسب یا کیپٹل ایڈیکیسی ریشو(سی اے آر)کے تنزل اور کاروبار سنبھالنے کے طریقے کی خامیاں ضوابط کار نظروں میں آنے سے بچ نکلی ہیں باالخصوص ایسے میں جب آر بی آئی کی جانب سے 'رِسک بیسڈ سپروائزری' کا نظام استعمال کیا جارہا ہے۔اگر سرمایہ کا بحران اور لیکویڈیٹی پر دباؤ ہی بینک کے خلاف کی گئی کارروائی کی فوری وجہ ہے تو ایک بچاؤ کارروائی اس ادارے کی موجودہ پریشانی سے بچاسکتی تھی جو باالآخر نجی بینکوں کی اعتباریت کو کھا جاتی ہے۔

یس بینک سنہ 2004میں معرضِ وجود میں آکر ملک میں چوتھے بڑے بینک کے بطور ابھرا ۔پیشہ وروں کے ذریعہ چلایا جانے والا یہ بینک رفتار پکڑ کر 15سال کے مختصر عرصہ میں 3.62لاکھ کروڑ روپے کے اثاثوں تک پہنچ گیا جبکہ مارچ سنہ 2019تک اس نے 15.7فیصد کا سی اے آر بنائے رکھا۔مجموعی نان پرفارمنگ ایسٹ (این پی آر) 7.39 اور خالص این پی آر4.35فیصد تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ نشانیاں تشویشناک نہیں تھیں بلکہ ضابطہ کار کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کیلئے انہیں بہتر کیا جاسکتا تھا۔لیکن داخلی پیمانوں میں بعض دیگر اہم کمزوریاں ہوسکتی ہیں جنہوں نے معاملے کی نزاکت کو نہ سمجھ کر اسے بڑھاوا دیا جس کے نتیجے میں بینک کو اس گھنونی صورتحال سے دو چار ہونا پڑرہا ہے۔

ملک کی 28 ریاستوں اور 9 مرکز کے زیرانتظام ریاستوں (یونین ٹریٹریوں) میں قریب 1000 شاخوں اور 1800 اے ٹی ایم مشینوں کے ساتھ پھیلا یس بینک مارچ سنہ 2019تک 2.27لاکھ کروڑروپے کے ڈیپازٹ اور2.64 لاکھ کروڑ روپے کے ایڈوانس کے ساتھ لاکھوں ' اَپ اینڈ/ہائی نیٹ' افراد کی خدمت کررہا تھا۔

ستمبر 2019میں ڈیپازٹ 2.09لاکھ کروڑ روپے تک لڑھک گیا جس سے لیکویڈیٹی پر دباؤ بڑھ گیا اور پھر یہ رجحان رُکنے سے رہ گیا۔ظاہری طور پر ایسا اچھا بینک فورا تنگدستی کا شکار ہوگیا یہاں تک کہ اسکے خلاف کارروائی ہوئی۔یہ گڑبڑ شاید اتنا تیز اور فوری تھا کہ آر بی آئی فوری اصلاحی کارروائی (پی سی اے) ضابطہ کار کے ہتھیار کا استعمال ہی نہیں کر سکا، جس سے (بینک میں)اصلاحی اقدامات شروع ہوسکتے تھے۔

عام طور پر چار شرائط کے پورا ہونے (یعنی سرمایہ 10.875فیصد کے نشانہ سے نیچے ہو، خالص این پی اے6 فیصد سے اوپر ہو، لگاتار دو سہ ماہی کوارٹروں میں اثاثوں پر ریٹرن منفی رہا ہو اور ہائی لیوریج ریشو4.5فیصد سے زیادہ ہو) پر آر بی آئی کی جانب سے پی سی اے کا استعمال کیا جاتا ہے۔فی الوقت پبلک سیکٹر کے چار بینک، یونائیٹڈ بینک، سنٹرل بینک، آئی او بی،یوسی او بینک، آئی ڈی بی آئی بینک اور لکشمی ولاس بینک، پی سی اے کے تحت کام کررہے ہیں۔

خطرے کی گھنٹی

یس بینک کی پریشانی کی گھنٹی تب بجی جب کوئی بھی سرمایہ کار بینک کے منافع سرمایہ کرنے میں ناکام رہی، وہیں بینک مارچ 2019 میں 3 ہزار 277 کروڑ روپے کا این پی اے رپورٹ ہی نہیں کرپائی تھی۔ اس کے علاوہ جب آر بی آئی نے یس بینک کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اور سی او رانا کپور کی مدت کار میں توسیع کرنے سے انکار کردیا تھا، لیکن اس وقت بھی خطرے کی گھنٹی لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچ پائی تھی ۔وہیں اس کے بعد بجب رانا نے ستمبر 2019 میں بینک کا 55.2 ملین کا شیئر بیچ دیا تھا، حالانکہ تب بینک کے حالات اس وقت اتنے بدتر نہیں تھے۔

بعدازاں موڈی انوسٹر سروس نے دسمبر2019میں بڑھتے ہوئے زیرِ دباؤ اثاثوں اورکم نقصان جذب کرنے والے بفر و دیگر چیزوں کی وجہ سے بینک کی کریڈٹ ریٹنگ گھٹا دی جس سے بینک کی سالونسی یعنی قرض ادا کرنے کی حیثیت میں مزید بگاڑ اور خطرات کی نشاندہی ہوگئی تھی۔

ممکنہ خراب اثاثوں کے ساتھ کارپوریٹ گورننس کی کمزور حکمت عملی، کمزور نظامی کنٹرول اور بورڈ کی آزادی اور بیلنس شیٹ نے آپریشنل رسک اور ناکافی نظامی کنٹرول کی نشاندہی پہلے کی کردی تھی جب بینک کی انتظامیہ نے مفادِ خصوصی کے ساتھ کام کرنے کا انتخاب کیا تو جانچ پڑتال (آڈِٹ)کا سارا نظام ہی بگڑ گیا۔ ویسے بھی جب نئی نسل کے نجی بینکوں کی کارکردگی کو ایک نمونہ کے طور پر بتایا جاتا ہے تو اکثر اس سیکٹر میں جاری ناکامی چُھپ سی جاتی ہے۔

یس بینک کو اس ناکامی سے آگے بڑھنے کے لیے نئے راستے

یس بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرس کو معطل کرکے اسکی جگہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو اختیار دے دیا گیا ہے، جو یس بینک میں 5000کروڑ روپے کا سرمایہ کرنے والا ہے۔ نئی انتظامیہ کی اس تجویز کے ساتھ تشکیلِ نو سنہ 2020کی پالیسی اسے(یس بنک کو)واپس پٹری پر لا سکتی ہے۔

یس بینک کی موجودہ حالت سے خوف زدہ ڈیپازیٹروں کو اس بات سے کچھ راحت تو ہے کہ انکی جمع رقم محفوظ رہے گی اور انکی مشکل 4اپریل 2020کے بعد سے ختم ہوجائے گی۔

لیکن اگر گاہکوں نے پہلے ہی خود احتسابی سے کام لیتے ہوئے وقت پر مداخلت کرلیتے تو بینک میں ضابطوں کی پاسداری لازمی ہوجاتی اور ہم اس موجودہ صورتحال سے بچ سکتے تھے۔لیکن جب اب حکومت اور آر بی آئی نے بینک کو اپنے اختیار میں لے لیا ہے، اب انکی اہلیت پر انحصار کرے گا کہ وہ تشکیل نو اسکیم کو اب مناسب طریقے سے نافذ کرے تاکہ صارفین کی ذہنی مشکلات کچھ حد تک ختم ہوسکے۔

گھریلو اور بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کا مالیاتی نظام پر دوبارہ اعتماد بحال کرنا کافی نازک معاملہ ہے، اور ایسی صورت حال میں جب ملک معاشی مندی کا شکار ہو اور جبکہ اس تعلق سے متعدد خبریں گردش کررہی تھی لیکن صارفین اس خطرے کی گھنٹی سے بے خبر تھے۔

مصنف انسٹی ٹیوٹ آف انشورنس اینڈ رِسک منیجمنٹ، آئی آئی آر ایم حیدرآباد میں ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں.

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.