ETV Bharat / business

بھارت کو سمندری حدود میں درپیش مشکلات

author img

By

Published : Feb 18, 2020, 8:00 PM IST

Updated : Mar 1, 2020, 6:36 PM IST

چین کی سمندری جارحیت روکنے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بھارتی بحریہ مضبوط ہو ۔ 'میک اِ ن انڈیا' اور بھارت کو پانچ ٹریلین ڈالر کی اقتصادی قوت بنانے کا خواب بھی اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، جب ہم پہلے ایک مضبوط فوجی قوت بن جائیں۔ اس لیے بجٹ الوکیشن کی کمی ایک باعث تشویش بات ہے۔

بھارت کو سمندری حدود میں درپیش مشکلات
بھارت کو سمندری حدود میں درپیش مشکلات

بھارت کے سمندری حدود ملک کے اقتصادیات کے لیے مفید اور بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں سے استفادہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن یہ بات باعث تشویش ہے کہ بجٹ میں بحریہ کو مطلوبہ رقومات مختص نہیں رکھی گئی ہیں۔

سال 2012-13 میں 18 فیصد بجٹ بحریہ کے لئے مختص رکھا گیا تھا لیکن اس مالی سال میں اسے گھٹا کر 13 فیصد رکھا گیا ہے۔ بحری فوج کے سربراہ ایڈمرل کرم بیر سنگھ نے اس پر تنقید کی ہے۔ حالیہ بجٹ میں دفاعی شعبے کے لئے مختص رکھی جانے والی رقومات میں برائے نام اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بحریہ کے لئے ایک دھچکہ ہے، جسے پہلے ہی کئی طرح کی فنڈز کی کٹوتی سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

بھارت کے تین اطراف میں سمندر ہونے کی وجہ سے اسے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع حاصل ہے۔ مختلف ممالک کو خام تیل اور اناج سمندری راستوں سے ہی سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان سمندری راستوں میں کسی قسم کے بھی خلل کے نتیجے میں دنیا بھر کے اقتصادی نظام پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے ماہرین کا مشورہ ہے کہ ملک کی بحری فوج کو مضبوط کیا جانا بے حد ضروری ہے۔

بھارت کے پاس اس کے سمندری حدود میں انڈمان و نیکو بار اور لکش دیپ جیسے کئی جزائر ہیں۔ بیرونی ممالک کی بھارتی سمندری حدود میں دراندازی روکنے کے لئے مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔ چند ماہ قبل ہی چینی جہاز بغیر اجازت کے انڈمان میں بھارتی حدود میں داخل ہوگیا تھا۔یہ چینی جہاز بھارتی بحریہ کے للکارنے پر ہی واپس چلا گیا ۔جبکہ اس بات کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کم از کم سات سے آٹھ چینی آبدوزیں عام طور سے بھارتی ساحلوں کا جائزہ لیتی رہتی ہیں۔

انڈمان بھارتی سمندر کے مشرقی حصے سے جڑا ہوا ہے۔اس جزیرے کی بدولت بھارت کو سمندری حدود کی دفاعی نگرانی میں برتری حاصل ہے۔چین وسط ایشیاء کے ملاکا کے راستے سے خام تیل در آمد کرتا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ جنوبی چین میں واقع سمندر صرف اس کا ہے اور اس پر کسی اور کا حق نہیں ہے۔ لیکن اس کا ماننا ہے کہ بھارتی سمندر سب کے لئے ہے۔ وہ بھارت کے گرد نواح کے سمندری حدور میں تجارتی اور دفاعی مقاصد کے لئے بحریہ کے ٹھکانے قائم کررہا ہے۔ اس عمل میں میانمار اس کا قریبی حلیف ہے۔

چین نے میانمار کے کیاکپی سمندر ی ساحل سے لیکر چین صوبے کن منگ تک قدرتی گیس اور خام تیل سپلائی کے لئے پائپ لائن بچھادی ہے۔چین کا منصوبہ ہے کہ اگر ملاکا کے راستے میں کبھی کسی طرح کی خلل پیدا ہو تو اس صورت میں وہ اسی پائپ لائن سے خام تیل کی سپلائی حاصل کرے گا۔

جبکہ دوسری جانب بھارتی فوجی ذرائع کو شبہ ہے کہ چین انڈمان سمندر پر قابض ہونا چاہتا ہے، جو بھارت، میانمار، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے درمیان واقع ہے۔اس پر چین کا کوئی حق نہیں ہے۔

میانمار کے ساتھ بھارت کے قریبی مراسم ہیں۔ نارتھ ایسٹ کے کئی ملی ٹینٹ کیمپ میانمار میں قائم ہیں۔دونوں ملکوں نے آپریشن سن شائن کے نام سے کارروائی کرتے ہوئے متعدد دہشت گرد گروپوں کو ختم کردیا ہے۔

میانمار کے سمندر میں چین کے داخل ہوجانے سے بھارت کو کافی تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ چین پہلے ہی پاکستان کے گوادر اور سری لنکا کے ہمبانٹوٹا میں اپنے بحری ٹھکانے قائم کرچکا ہے اور اب وہ بھارتی سمندر میں اپنی موجودگی یقینی بنانے کے لئے کوشش کررہا ہے۔

امریکہ، جاپان اور بھارت نے چین کی جارحیت کو روکنے کیلئے اتحاد قائم کیا ہوا ہے۔امریکہ سمجھتا ہے کہ بھارت چین کے عزائم کو روکنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔بھارت کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اس کی بحری فوج مضبوط ہو۔دنیا کے مجموعی تیل کا 60فیصد ہارموز سٹرائٹ سے سپلائی ہو جاتا ہے۔

امریکہ ۔ ایران تنازعات کے چلتے بھارت نے بھارتی سمندری حدود میں مال بردار جہازوں کی سیکورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔'آپریشن سنکلپ' کے تحت خلیج فارس سے آنے والے ایشیاء کی سپلائی کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ اتنی مشکلات کے باوجود بحریہ کے لئے کم بجٹ الوکیشن باعث تشویش ہے۔ بحریہ کو طویل فاصلی حفاظت کے لئے کم از کم تین ایئر کرافٹس کی ضرورت ہے ۔ جبکہ فی الوقت اس کے پاس صرف ایک آئی این ایس وکرما دِتا میسر ہے۔ دوسرا جہاز وکرانت سال 2021 تک بحریہ کے سپرد کیا جائے گا ،جو ملک کے مقامی ٹیکنالوجی کے ذریعے بنایا جارہا ہے۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ بھارتی سمندری حدود میں چین کی جارحیت سے نمٹنے کے لئے ایک ائیر کرافٹ کیرئیر کو ہمہ وقت وقف رکھنا ناگزیر ہے۔ بھارت کو پانچ ٹرلین ڈالر کی اقتصادی قوت بنانے کا وزیر اعظم مودی کا خواب بھی صرف اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، جب ہم پہلے ایک مضبوط فوجی قوت بن جائیں گے۔

بھارتی سمندری حدود جغرافیائی لحاظ سے مشرقی ایشائی، مغربی ایشیاء اور افریقہ کے سمندری تجارتی خطے کے بیچ میں واقع ہیں۔اس وجہ سے بھی بھارتی بحریہ کو ہر وقت خود کو بہتر اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

بحری جہازوں کی تعمیر ایک طویل اور الجھن بھرا عمل ہے اور اس کے لئے وافر مقدار میں فنڈس کی ضرورت ہے۔پروجیکٹ ۔75کے تحت چھ آبدوزیں بنائی جارہی ہیں۔ ان میں سے دو پہلے ہی بحریہ کو سونپ دی گئی ہیں۔

دفاعی ماہرین چاہتے ہیں کہ' میک اِن انڈیا 'اقدام کے تحت بڑے پیمانے پرجنگی بحرے بیڑے تعمیر کئے جائیں۔امریکہ کے مضبوط اور نا قابل تسخیر بحریہ میں ہی اسکی اجارہ داری کا راز مضمر ہے۔ اس کو دیکھ کر چین نے بھی بڑے پیمانے پر جنگی بحری بیڑوں کی تعمیر شروع کررکھی ہے۔

پاکستان بھی اپنے جنگی بیڑے کی جدید طرز پر تجدید کرنے میں لگا ہوا ہے۔ بھارتی بحریہ کو کم از کم دو سو جنگی بحری بیڑوں کی ضرورت ہے۔ فنڈس کی عدم دستیابی، حکومتی لاپرواہی اور پروجیکٹوں کی سست رفتاری کی وجہ سے بھارت کے پاس اس وقت صرف 130بحری جنگی جہاز ہیں۔ مزید پچاس فی الوقت تیارکئے جارہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود 20بحری جہازوں کی کمی ہے۔ بحریہ کا 'میک اِن انڈیا'منصوبے کا حصہ ہونے کی حیثیت سے مرکز کو چاہیے کہ وہ مزید پرائیویٹ کمپنیوں کو بحری جہازوں کی تعمیر کا کام سونپ دے ۔

بھارت کے سمندری حدود ملک کے اقتصادیات کے لیے مفید اور بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں سے استفادہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن یہ بات باعث تشویش ہے کہ بجٹ میں بحریہ کو مطلوبہ رقومات مختص نہیں رکھی گئی ہیں۔

سال 2012-13 میں 18 فیصد بجٹ بحریہ کے لئے مختص رکھا گیا تھا لیکن اس مالی سال میں اسے گھٹا کر 13 فیصد رکھا گیا ہے۔ بحری فوج کے سربراہ ایڈمرل کرم بیر سنگھ نے اس پر تنقید کی ہے۔ حالیہ بجٹ میں دفاعی شعبے کے لئے مختص رکھی جانے والی رقومات میں برائے نام اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بحریہ کے لئے ایک دھچکہ ہے، جسے پہلے ہی کئی طرح کی فنڈز کی کٹوتی سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

بھارت کے تین اطراف میں سمندر ہونے کی وجہ سے اسے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع حاصل ہے۔ مختلف ممالک کو خام تیل اور اناج سمندری راستوں سے ہی سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان سمندری راستوں میں کسی قسم کے بھی خلل کے نتیجے میں دنیا بھر کے اقتصادی نظام پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے ماہرین کا مشورہ ہے کہ ملک کی بحری فوج کو مضبوط کیا جانا بے حد ضروری ہے۔

بھارت کے پاس اس کے سمندری حدود میں انڈمان و نیکو بار اور لکش دیپ جیسے کئی جزائر ہیں۔ بیرونی ممالک کی بھارتی سمندری حدود میں دراندازی روکنے کے لئے مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔ چند ماہ قبل ہی چینی جہاز بغیر اجازت کے انڈمان میں بھارتی حدود میں داخل ہوگیا تھا۔یہ چینی جہاز بھارتی بحریہ کے للکارنے پر ہی واپس چلا گیا ۔جبکہ اس بات کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کم از کم سات سے آٹھ چینی آبدوزیں عام طور سے بھارتی ساحلوں کا جائزہ لیتی رہتی ہیں۔

انڈمان بھارتی سمندر کے مشرقی حصے سے جڑا ہوا ہے۔اس جزیرے کی بدولت بھارت کو سمندری حدود کی دفاعی نگرانی میں برتری حاصل ہے۔چین وسط ایشیاء کے ملاکا کے راستے سے خام تیل در آمد کرتا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ جنوبی چین میں واقع سمندر صرف اس کا ہے اور اس پر کسی اور کا حق نہیں ہے۔ لیکن اس کا ماننا ہے کہ بھارتی سمندر سب کے لئے ہے۔ وہ بھارت کے گرد نواح کے سمندری حدور میں تجارتی اور دفاعی مقاصد کے لئے بحریہ کے ٹھکانے قائم کررہا ہے۔ اس عمل میں میانمار اس کا قریبی حلیف ہے۔

چین نے میانمار کے کیاکپی سمندر ی ساحل سے لیکر چین صوبے کن منگ تک قدرتی گیس اور خام تیل سپلائی کے لئے پائپ لائن بچھادی ہے۔چین کا منصوبہ ہے کہ اگر ملاکا کے راستے میں کبھی کسی طرح کی خلل پیدا ہو تو اس صورت میں وہ اسی پائپ لائن سے خام تیل کی سپلائی حاصل کرے گا۔

جبکہ دوسری جانب بھارتی فوجی ذرائع کو شبہ ہے کہ چین انڈمان سمندر پر قابض ہونا چاہتا ہے، جو بھارت، میانمار، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے درمیان واقع ہے۔اس پر چین کا کوئی حق نہیں ہے۔

میانمار کے ساتھ بھارت کے قریبی مراسم ہیں۔ نارتھ ایسٹ کے کئی ملی ٹینٹ کیمپ میانمار میں قائم ہیں۔دونوں ملکوں نے آپریشن سن شائن کے نام سے کارروائی کرتے ہوئے متعدد دہشت گرد گروپوں کو ختم کردیا ہے۔

میانمار کے سمندر میں چین کے داخل ہوجانے سے بھارت کو کافی تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ چین پہلے ہی پاکستان کے گوادر اور سری لنکا کے ہمبانٹوٹا میں اپنے بحری ٹھکانے قائم کرچکا ہے اور اب وہ بھارتی سمندر میں اپنی موجودگی یقینی بنانے کے لئے کوشش کررہا ہے۔

امریکہ، جاپان اور بھارت نے چین کی جارحیت کو روکنے کیلئے اتحاد قائم کیا ہوا ہے۔امریکہ سمجھتا ہے کہ بھارت چین کے عزائم کو روکنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔بھارت کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اس کی بحری فوج مضبوط ہو۔دنیا کے مجموعی تیل کا 60فیصد ہارموز سٹرائٹ سے سپلائی ہو جاتا ہے۔

امریکہ ۔ ایران تنازعات کے چلتے بھارت نے بھارتی سمندری حدود میں مال بردار جہازوں کی سیکورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔'آپریشن سنکلپ' کے تحت خلیج فارس سے آنے والے ایشیاء کی سپلائی کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ اتنی مشکلات کے باوجود بحریہ کے لئے کم بجٹ الوکیشن باعث تشویش ہے۔ بحریہ کو طویل فاصلی حفاظت کے لئے کم از کم تین ایئر کرافٹس کی ضرورت ہے ۔ جبکہ فی الوقت اس کے پاس صرف ایک آئی این ایس وکرما دِتا میسر ہے۔ دوسرا جہاز وکرانت سال 2021 تک بحریہ کے سپرد کیا جائے گا ،جو ملک کے مقامی ٹیکنالوجی کے ذریعے بنایا جارہا ہے۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ بھارتی سمندری حدود میں چین کی جارحیت سے نمٹنے کے لئے ایک ائیر کرافٹ کیرئیر کو ہمہ وقت وقف رکھنا ناگزیر ہے۔ بھارت کو پانچ ٹرلین ڈالر کی اقتصادی قوت بنانے کا وزیر اعظم مودی کا خواب بھی صرف اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، جب ہم پہلے ایک مضبوط فوجی قوت بن جائیں گے۔

بھارتی سمندری حدود جغرافیائی لحاظ سے مشرقی ایشائی، مغربی ایشیاء اور افریقہ کے سمندری تجارتی خطے کے بیچ میں واقع ہیں۔اس وجہ سے بھی بھارتی بحریہ کو ہر وقت خود کو بہتر اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

بحری جہازوں کی تعمیر ایک طویل اور الجھن بھرا عمل ہے اور اس کے لئے وافر مقدار میں فنڈس کی ضرورت ہے۔پروجیکٹ ۔75کے تحت چھ آبدوزیں بنائی جارہی ہیں۔ ان میں سے دو پہلے ہی بحریہ کو سونپ دی گئی ہیں۔

دفاعی ماہرین چاہتے ہیں کہ' میک اِن انڈیا 'اقدام کے تحت بڑے پیمانے پرجنگی بحرے بیڑے تعمیر کئے جائیں۔امریکہ کے مضبوط اور نا قابل تسخیر بحریہ میں ہی اسکی اجارہ داری کا راز مضمر ہے۔ اس کو دیکھ کر چین نے بھی بڑے پیمانے پر جنگی بحری بیڑوں کی تعمیر شروع کررکھی ہے۔

پاکستان بھی اپنے جنگی بیڑے کی جدید طرز پر تجدید کرنے میں لگا ہوا ہے۔ بھارتی بحریہ کو کم از کم دو سو جنگی بحری بیڑوں کی ضرورت ہے۔ فنڈس کی عدم دستیابی، حکومتی لاپرواہی اور پروجیکٹوں کی سست رفتاری کی وجہ سے بھارت کے پاس اس وقت صرف 130بحری جنگی جہاز ہیں۔ مزید پچاس فی الوقت تیارکئے جارہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود 20بحری جہازوں کی کمی ہے۔ بحریہ کا 'میک اِن انڈیا'منصوبے کا حصہ ہونے کی حیثیت سے مرکز کو چاہیے کہ وہ مزید پرائیویٹ کمپنیوں کو بحری جہازوں کی تعمیر کا کام سونپ دے ۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 6:36 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.