سنٹرل اسٹیٹیکل آرگنائزیشن (سی ایس او) کے اندازے کے مطابق سال 20-2019میں جی ڈی پی کی شرح 5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے قیاس آرائی کی تھی کہ سی ایس او ا اپنے تخمینہ رپورٹ میں وزیر خزانہ کی جانب سے کیے گئے اقتصادی سروے کی 7 فیصد شرح ترقی کم دکھائے گا۔جب کہ اس وقت شرح ترقی 10 چوتھائی حصے سے گھٹ رہی تھی۔
جب سے حکومت کی جانب سے سرمایہ کی تشکیل کرنے یا سرمایہ کاری کرنے کے باوجود بھی بجٹ کے تخمینہ میں معقول اضافہ نہیں ہوا ہے۔
چنانچہ انتخابات کے بعد وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے پیش کردہ بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے تجویز پیش کی گئی تھی کہ کبھی کبھی مسلسل گراوٹ مالی محرک اور معاشی نمو کا سبب بن سکتی ہے۔
وزیر خزانہ نے اپنے بجٹ تقریر میں بجٹ کے تخمینوں کا موازنہ گزشتہ برس کے نظرثانی شدہ تخمینے سے کیا تھا، جو کہ ہمارے خیال سے جائز نہیں ہے کیونکہ اعداد و شمار (اسٹیٹیک) میں موازنہ کرنا ضروری ہے، لیکن معاشی بحالی کے لیے جملوں پر نہیں بلکہ اس پر کام کرنا ضروری ہے۔
مالی بحران کے سبب بھارت میں سرمایہ کاری میں زبردست کمی آئی ہے۔جبکہ یہ اندازہ لگایا گیاتھا کہ سی ایس او کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر 2020 کے وسط میں حکومت سرمایہ کی تشکیل میں میں 0.54 فیصد سے کمی واقع ہوگی۔
مختصر مدت میں معاشی بحالی کے لیے اصلاحات کی اسٹریٹجی ناکام رہی ہے ۔حقیقی انتظامی اور معاشی پالیسی میں اصلاحات ایک بتدریج عمل ہے اور معاشی ترقی کے آخری منزل کو طئے کرنے کےلیے مستقل طور پر معاشی سائیکل کو پورا کرنا ضروری ہے،لیکن مستقبل اور مختصر مدت میں معیشت کو بحال کرنے کے لیے ہمیں ملک میں وسائل پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے غیرملکی کمپنیاں ملک میں سرمایہ کاری کی طرف رغبت کرسکیں ۔
ملک اور بیرونی ممالک کے تجزیہ کاروں نے پہلے سے ہی جی ڈی پی کی شرح 5 فیصد کے ساتھ مزید 0.25 فیصد شرح ترقی کی امید ظاہر کی تھی۔
گزشتہ برس حکومت کی جانب سے بجٹ کے دستاویزات جاری ہونے پر اندازہ لگایاگیا تھا کہ بجٹ میں بڑے بڑے اعلانات کیے جائیں گی لیکن حکومت نے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں کیا اور نہ ہی ابھی تک اس سمت میں کوئی قدم اٹھایا ہے۔جس کے نتیجے میں شرح نمو کی ترقی میں کمی درج ہوئی ہےاور ساتھ میں سرمایہ کاری کی شرحیں انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
وزیر خزانہ جے این یو سے تعلیم یافتہ ایک ماہر معاشیات ہیں، جنہوں نے معیشت کے بارے میں کافی جانکاری ہیں۔لیکن انہوں نے اعلان کیا کہ حقیقی سرمایہ کاری سے شرح ترقی میں تیزی سے اضافہ ہوگا، جس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
انہوں نے معاشی ترقی کے بارے میں دو ایسی کوششیں کیں اور دونوں میں متعدد اعلان کیے۔جس میں زیادہ تر طویل مدتی پالیسی جیسے ہاؤسنگ اور ٹیکس امور میں تبدیلی کرنے کی بات کی گئی ۔
یہ پالیسی اچھے تھے لیکن یہ مائکرو معاشی محرک کی کمی کے شکار ہوگئے۔
دراصل صرف ویمن سیلف ہیلپ گروپ کے ذریعہ تعمیر شدہ ریزرو کی حمایت کرنے کے لیے خرچ میں اضافہ کیا گیا، باقی پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگ (پی ایس یوز) اور دیگر کو سرمایہ کاری کرنے پر زور دیا گیا۔
جب ایسا کچھ اعلان کیا جارہا تھا تب پی ایس یوز کے ایک ریٹائرڈ چیئرمین اینڈ منیجنگ ڈائریکٹر بھی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جن کا شیئر ویلیومسلسل بڑھ رہا تھا 'اس وقت میں نے ان سے کہا یہ اچھا ہے اب حکومت کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور کارپوریٹ سیکٹر میں تیزی آئے گی'۔ جس پر انہوں نے کہا کہ 'نہیں سر' اعلان اور خطوط کی بنیاد پر تجربہ کار پی ایس یو کے چیف کمپنی کے پیسوں کی سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔کیونکہ جب ان پر سی اے جی، پارلیمانی کمیٹی اور پریس کی جانب سے جانچ ہوتی ہے تو کوئی بھی کاروباری خطرات سے متعلق فیصلہ لینے کے لیےان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کمپنی کے وسائل پر سرمایہ کاری کرنے پر اچھا منافع حاصل نہیں ہوتا ہے اور منافع کمانے کے سلسلے میں سرمایہ کاری محفوظ نہیں ہوئی تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، لیکن انہیں کم شرح سود پر زیادہ منافع ملتا ہے تبھی وہ سرمایہ کاری کریں گے۔کیونکہ اس کمپنی کے لیے یہ سرمایہ کاری مالی طور پر قابل عمل ہوگا۔
پی ایس یو کی کم شرح سود کے سلسلے میں وزیر خزانہ نے ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد رقم جمع کرنا ہے جو کے ان کے پاس نہیں ہے۔
بیشتر مبصرین 20-2019کے دوسرے نصف حصے کے تخمینے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔سال 20-2019 کے پہلے نصف میں مینوفیکچرنگ شرح نمو منفی نمو سے ہٹ کر ترقی کی شرح 4 سے 5 فیصد کے درمیان ہوگئی ۔
مالی سال 2019 میں پیش کیے گئے بجٹ کے مقابلے حکومت نے 150لاکھ کروڑ کے قریب روپے خرچ کیے، لیکن بجٹ تخمینہ یا نظرثانی شدہ تخمینے سے موازانہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
اگر انفراسٹرکچر کے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے تو کارپوریٹ سیکٹر میں بھی تیزی آئے گی۔جس سے موجودہ وسائلوں کو استعمال میں لائے جانے سے مانگ میں اضافہ ہوگا اور روزگار میں بہتری کے ساتھ آمدنی اضافہ ہوگا۔جس کے بعد حکومت کی جانب سے نیشنل سیمپل سروے(این ایس ایس) کی رپورٹ جاری کی جائے گی جو کہ ہمیں بالکل مایوس نہیں کرے گی۔
مائکرو ااکنامکس کوئی راکیٹ سائنس نہیں ہے جسے حاصل کرنا مشکل ہو۔ اپنے ملک کے خاطر میں امید کرتا ہوں کہ میں غلط ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ہماری معیشت ترقی کی نئی بلندیوں کو طئے کرے۔
بدقسمتی سے کبھی کبھی حالت بہتر ہونے سے پہلے خراب ہوجاتے ہیں چاہے اس پر ابھی سے کام شروع کیا جائے۔لیکن یہ یاد رکھیں کہ فیصلہ لینے اور اچھے نتائج حاصل کرنے کے مابین چھ مہینے کا وقفہ لگتا ہے۔