ETV Bharat / business

جانیں: ایم ایس پی پر خریداری سے پیدا ہونے والے مشکلات؟

author img

By

Published : Dec 3, 2020, 12:42 PM IST

ماہریں کا کہنا ہے کہ' ایم ایس پی پر تمام فصلوں کی خریداری کے لیے حکومت کو 17 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑے گا، جسے پوا کرنے کے لیے حکومت کو ہر سکیٹرز میں تین گنا ٹیکس بڑھانا پڑے گا، جس کے بعد نہ تو سرمایہ کاری ہوگی، نہ ہی برآمد ہوگا اور نہ ہی روزگار پیدا ہوگا۔ لہذا ایم ایس پی کا لازمی مطالبہ ناجائز مطالبہ ہے۔

Why making MSP mandatory is problematic
Why making MSP mandatory is problematic

نئی دہلی: مودی سرکار کا دعوی ہے کہ وہ کسانوں کو ان کی فصلوں کی لاگت کا ڈیڑھ گنا قیمت دے گا۔ دوسری طرف کسان حکومت کی جانب سے طے شدہ ایم ایس پی پر فصلوں کی ضمانت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ تاہم ایم ایس پی کی ضمانت دینے میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ کا ایک بڑا حصہ ایم ایس پی پر ہی خرچ کرنا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ایم ایس پی پر تمام فصلوں کو خریدنے کے لیے حکومت کو تقریبا 17 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی۔ مرکزی حکومت زرعی لاگت اور قیمتوں کے لیے کمیشن کی سفارش پر ہر سال 22 فصلوں کے لیے مینیم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) طے کرتی ہے۔ ان میں سے خریف کی 14 فصلیں اور چھ ربیع کی فصلیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ایس پی جوٹ اور کوپرا کے لیے بھی طے ہے۔ وہیں گنے کے لیے مناسب اور معاوضہ کی قیمت بھی مقرر کی گئی ہے۔

تاہم ایم ایس پی پر حکومت بڑے پیمانے پر صرف دھان اور گندم ہی خریدتی ہے، کیونکہ یہ دونوں فصلیں قومی فوڈ سیکیورٹی ایکٹ کے تحت عوامی تقسیم کے نظام (PDS) کے لیے ضروری ہے۔

Why making MSP mandatory is problematic
نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی دہلی چلو تحریک کا آج اٹھواں دن

حالانکہ بڑی پیداواری ریاستوں میں دلہن اور تلہن کی خریداری کی جاتی ہے، لیکن یہ خریداری اسی حالت میں ہے جب متعلقہ ریاست میں فصل کی مارکیٹ قیمت ایم ایس پی سے کم ہونے پر ریاستی حکومت اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو تجویز بھیجتی ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایم ایس پی کا مطلب یہ ہے کہ کاشتکاروں کو فصلوں کی اتنی قیمت ملنی چاہیے، لہذا جب کسی دلہن اور تلہن کی فصلوں کی مارکیٹ قیمت ایم ایس پی سے نیچے آجاتی ہے تو پھر سرکاری ایجنسی وہاں کے کسانوں سے ایم ایس پی پر فصل خریدتی ہے۔

لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ حکومت کسانوں سے ساری فصلیں خریدے لہذا جب حکومت کل پیداوار کا ایک تہائی حصہ خریدتی ہے، تب وہاں مارکیٹ میں فصل کی قیمت بڑھ جاتی ہے، کسانوں کو مناسب قیمت مل جاتی ہے۔ کچھ ریاستوں میں حکومت مکئی اور دیگر فصلیں بھی خریدتی ہے۔

ایم ایس پی پر فصلوں کی ضمانت کا مطلب ہے کہ نجی تاجر بھی اس پر خریدنے پر مجبور ہوں گے۔ زرعی ماہر معاشیات وجے سردانہ کہتے ہیں کہ اگر نجی شعبے کے لیے ایم ایس پی پر خریداری لازمی کردی جائے گی، تو فصلوں کی قیمتیں زیادہ ہونے پر بین الاقوامی مارکیٹ سے درآمد کرنا شروع کردے گی۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو کسانوں سے ساری فصلیں خریدنی ہوں گی، لہذا آج کے نرخ کے مطابق حکومت کو 17 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنا ہوں گی۔

سردانہ نے کہا ایم ایس پی پر تمام فصلوں کی خریداری پر کل اخراجات آج کے نرخ کے مطابق تقریباً 17 لاکھ کروڑ روپے آئیں گے، جو حکومت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہوں گے۔ اس کے بعد کھاد سبسڈی پر ایک لاکھ کروڑ روپے اور کھانے کی سبسڈی پر ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔

حکومت ہند نے مالی برس 2020-21 میں 30،42،230 کروڑ روپے کے اخراجات کی تجویز پیش کی ہے جو 2019-20 کے نظرثانی شدہ تخمینے سے 12.7 فیصد زیادہ ہے۔

اگر حکومت کو تمام فصلیں خریدنی پڑیں تو پھر اس کے ذخیرہ کرنے سے متعلق مشکلات پیش آئیں گی۔

سردانہ نے کہا کہ ایم ایس پی کو لازمی بنانے میں کسی فصل کے معیار کے حوالے سے بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون سا معیار ایم ایس پی ہوگا اور ناقص معیار کی شرح کیا ہوگی اور کون اس سے خریداری کرے گا۔

وجئے سردانہ نے کہا ایم ایس پی پر تمام فصلوں کی خریداری کے لیے حکومت کو 17 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑے گا، جسے پوا کرنے کے لیے حکومت کو ہر سکیٹرز میں تین گنا ٹیکس بڑھانا پڑے گا، جس کے بعد نہ تو سرمایہ کاری ہوگی، نہ ہی برآمد ہوگا اور نہ ہی روزگار پیدا ہوگا۔ لہذا ایم ایس پی کا لازمی مطالبہ ناجائز مطالبہ ہے۔

Why making MSP mandatory is problematic
نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج

احتجاج کرنے والے کسانوں کو نئے زرعی قانون کے بعد ایم ایس پی پر خریداری جاری رکھنے پر اندیشہ ہے۔ اس پر غذا سکریٹری سدھنشو پانڈے کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں عوامی تقسیم کا نظام موجود ہے، حکومت کو ایم ایس پی پر اناج خریدنا پڑے گا لہذا یہ خدشہ بے بنیاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے جو نیا زرعی قانون متعارف کرایا ہے اس سے ایم ایس پی کی خریداری متاثر نہیں ہوگی، کیونکہ ایم ایس پی کا تعلق فوڈ سیکیورٹی سے ہے۔

نئی دہلی: مودی سرکار کا دعوی ہے کہ وہ کسانوں کو ان کی فصلوں کی لاگت کا ڈیڑھ گنا قیمت دے گا۔ دوسری طرف کسان حکومت کی جانب سے طے شدہ ایم ایس پی پر فصلوں کی ضمانت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ تاہم ایم ایس پی کی ضمانت دینے میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ کا ایک بڑا حصہ ایم ایس پی پر ہی خرچ کرنا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ایم ایس پی پر تمام فصلوں کو خریدنے کے لیے حکومت کو تقریبا 17 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی۔ مرکزی حکومت زرعی لاگت اور قیمتوں کے لیے کمیشن کی سفارش پر ہر سال 22 فصلوں کے لیے مینیم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) طے کرتی ہے۔ ان میں سے خریف کی 14 فصلیں اور چھ ربیع کی فصلیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ایس پی جوٹ اور کوپرا کے لیے بھی طے ہے۔ وہیں گنے کے لیے مناسب اور معاوضہ کی قیمت بھی مقرر کی گئی ہے۔

تاہم ایم ایس پی پر حکومت بڑے پیمانے پر صرف دھان اور گندم ہی خریدتی ہے، کیونکہ یہ دونوں فصلیں قومی فوڈ سیکیورٹی ایکٹ کے تحت عوامی تقسیم کے نظام (PDS) کے لیے ضروری ہے۔

Why making MSP mandatory is problematic
نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی دہلی چلو تحریک کا آج اٹھواں دن

حالانکہ بڑی پیداواری ریاستوں میں دلہن اور تلہن کی خریداری کی جاتی ہے، لیکن یہ خریداری اسی حالت میں ہے جب متعلقہ ریاست میں فصل کی مارکیٹ قیمت ایم ایس پی سے کم ہونے پر ریاستی حکومت اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو تجویز بھیجتی ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایم ایس پی کا مطلب یہ ہے کہ کاشتکاروں کو فصلوں کی اتنی قیمت ملنی چاہیے، لہذا جب کسی دلہن اور تلہن کی فصلوں کی مارکیٹ قیمت ایم ایس پی سے نیچے آجاتی ہے تو پھر سرکاری ایجنسی وہاں کے کسانوں سے ایم ایس پی پر فصل خریدتی ہے۔

لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ حکومت کسانوں سے ساری فصلیں خریدے لہذا جب حکومت کل پیداوار کا ایک تہائی حصہ خریدتی ہے، تب وہاں مارکیٹ میں فصل کی قیمت بڑھ جاتی ہے، کسانوں کو مناسب قیمت مل جاتی ہے۔ کچھ ریاستوں میں حکومت مکئی اور دیگر فصلیں بھی خریدتی ہے۔

ایم ایس پی پر فصلوں کی ضمانت کا مطلب ہے کہ نجی تاجر بھی اس پر خریدنے پر مجبور ہوں گے۔ زرعی ماہر معاشیات وجے سردانہ کہتے ہیں کہ اگر نجی شعبے کے لیے ایم ایس پی پر خریداری لازمی کردی جائے گی، تو فصلوں کی قیمتیں زیادہ ہونے پر بین الاقوامی مارکیٹ سے درآمد کرنا شروع کردے گی۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو کسانوں سے ساری فصلیں خریدنی ہوں گی، لہذا آج کے نرخ کے مطابق حکومت کو 17 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنا ہوں گی۔

سردانہ نے کہا ایم ایس پی پر تمام فصلوں کی خریداری پر کل اخراجات آج کے نرخ کے مطابق تقریباً 17 لاکھ کروڑ روپے آئیں گے، جو حکومت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہوں گے۔ اس کے بعد کھاد سبسڈی پر ایک لاکھ کروڑ روپے اور کھانے کی سبسڈی پر ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔

حکومت ہند نے مالی برس 2020-21 میں 30،42،230 کروڑ روپے کے اخراجات کی تجویز پیش کی ہے جو 2019-20 کے نظرثانی شدہ تخمینے سے 12.7 فیصد زیادہ ہے۔

اگر حکومت کو تمام فصلیں خریدنی پڑیں تو پھر اس کے ذخیرہ کرنے سے متعلق مشکلات پیش آئیں گی۔

سردانہ نے کہا کہ ایم ایس پی کو لازمی بنانے میں کسی فصل کے معیار کے حوالے سے بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون سا معیار ایم ایس پی ہوگا اور ناقص معیار کی شرح کیا ہوگی اور کون اس سے خریداری کرے گا۔

وجئے سردانہ نے کہا ایم ایس پی پر تمام فصلوں کی خریداری کے لیے حکومت کو 17 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑے گا، جسے پوا کرنے کے لیے حکومت کو ہر سکیٹرز میں تین گنا ٹیکس بڑھانا پڑے گا، جس کے بعد نہ تو سرمایہ کاری ہوگی، نہ ہی برآمد ہوگا اور نہ ہی روزگار پیدا ہوگا۔ لہذا ایم ایس پی کا لازمی مطالبہ ناجائز مطالبہ ہے۔

Why making MSP mandatory is problematic
نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج

احتجاج کرنے والے کسانوں کو نئے زرعی قانون کے بعد ایم ایس پی پر خریداری جاری رکھنے پر اندیشہ ہے۔ اس پر غذا سکریٹری سدھنشو پانڈے کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں عوامی تقسیم کا نظام موجود ہے، حکومت کو ایم ایس پی پر اناج خریدنا پڑے گا لہذا یہ خدشہ بے بنیاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے جو نیا زرعی قانون متعارف کرایا ہے اس سے ایم ایس پی کی خریداری متاثر نہیں ہوگی، کیونکہ ایم ایس پی کا تعلق فوڈ سیکیورٹی سے ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.