ETV Bharat / business

'مسلم لیبر فورس کے اضطراب سے معیشت کو دو گنا نقصان ہوگا'

author img

By

Published : Feb 24, 2020, 10:38 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 11:20 AM IST

یو ایس پالیسی انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن میں چیف اسکالر ابو صالح شریف نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو میں بھارت کی معیشت میں مسلم لیبر فورس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 'بھارت میں مسلم طبقے کا 100 ملین لیبر فورس ہے، جو مجموعی لیبر فورس کا 20 فیصد ہے۔'

it will hurt Indian economy twice if you hurt Muslim labour force
فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ 'اگر اس 20 فیصد لیبر فورس کو مضطرب کریں گے اور ان کے مفادات کے مزاحم ہوں گے تو اس کا نقصان 20 فیصد نہیں بلکہ 40 فیصد یعنی دگنا ہوگا۔'

اقلیتوں، بالخصوص بھارتی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورت حال پر مبنی سچر کمیٹی کی رپورٹ کے عمل میں ماہر اقتصادیات رکن کے طور پر شامل رہے ابو صالح شریف، جو ان دنوں بھارت میں ہیں، انہوں نے مسلم لیبر فورس کے اضطراب اور اس کے بھارتی معیشت پر اثرات پر اعداد وشمار کی روشنی میں ایک تحقیق کی ہے جسے انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی طور پر شیئر کی۔

it will hurt Indian economy twice if you hurt Muslim labour force
فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ 'صرف ایک انسان کام نہیں کرتا ہے، اس کو سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن کا ایک منہج ہوتا ہے، کئی ہنر کے امتزاج سے ایک چیز کی پیداوار ہوتی ہے تو معیشت میں باہم ربط کا کام ہوتا ہے اور اگر اس کڑی میں مسلم لیبر فورس کو پریشانی آتی ہے تو معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔'

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو

ابو صالح شریف نے مسلم لیبر فورس کی 'بے چینی' کی موجودگی کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ 'موجودہ حکومت میں مسلم لیبر فورس کو زیادہ اضطراب سے گزرنا پڑ رہا ہے، ان کو تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ ملازمتوں میں مواقع میسر نہیں، ہر طرح کے قرض حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے تو بہت ساری وجوہات ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیبر فورس کی پیداواری کم ہو رہی ہے۔ جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر 100 ملین مسلم لیبر پریشان ہوتا ہے تو 100 ملین غیر مسلم یعنی ہندو لیبر فورس بھی متاثر ہوگا، جو ظاہر ہے دگنا نقصان ہے۔'

مسلم لیبر فورس کیوں بے چین ہے؟ ماہر اقتصادیات ابو صالح شریف نے مسلم لیبر فورس کی بے چینی کی وجہ نظام کی جانبداری کو بتایا اور کہا کہ یہ برسوں سے چلا آرہا ہے اور مودی کے دور حکومت میں جانبداری کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ غیر منظم صنعت جس میں مسلم لیبر فورس ہے، اسے گلوبل معیشت کا حصہ بننے نہیں دیا جارہا ہے، گلوبل معیشت کا حصہ بننے کے لیے جس کریڈٹ اور ٹکنالوجی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، ان سے انہیں جان بوجھ کر محروم کر دیا جاتا ہے، خاص طور پر آج کی سیاست میں مسلم لیبر فورس کو ماڈرن معیشت سے جڑنے میں دشواری آرہی ہے، اسی وجہ سے مسلم لیبر فورس بین الاقوامی تجارت سے مربوط ہونے میں سست ہو گیا ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے کہ وسائل کی شراکت میں مذہبی بنیادوں پر جانبداری جو مسلم لیبر فورس کو جھیلنا پڑتا ہے۔ مسلم لیبر فورس میں پیداواری کی قابلیت زیادہ ہے۔'

ڈاکٹر ابو صالح شریف نے مزید دعوی کیا کہ 'مسلم لیبر فورس میں پیداواری کی قابلیت زیادہ ہوتی ہے، اس کی پیداوار دیگر طبقات کے مقابلے 10 اور 20 فیصد زیادہ ہوتی ہے، تعلیم یافتہ (گریجویشن تک) اور غیر تعلیم یافتہ مسلم لیبر فورس کا فائدہ صاف نظر آتا ہے لیکن گریجویشن کے بعد ان کے لیے بازار نامکمل ہوتا ہے، مسابقت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس کی پیداواری زیادہ نظر نہیں آتی۔'

پانچ ٹریلین معیشت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ '5 ٹریلین کی معیشت کا ہدف صحیح نہیں' ڈاکٹر شریف نے مزید کہا کہ 'کسی بھی معیشت میں ہدف بہت اہم ہوتا ہے مگر آج کے عہد میں ہم نمبرز اور اعدادوشمار سے کھیلتے ہیں، 3 ٹریلین کی معیشت کو 5 ٹریلین کا بولا جاسکتا ہے، اس میں قوت خرید کا اختلاف کام کرتا ہے، اسی لئے بھارت کے لیے یہ ہدف صحیح نہیں ہے، ہمیں فی فرد آمدنی (پرکیپیٹا انکم) پر دھیان دینا چاہیے کہ لوگوں کے پاس کتنا پیسہ پہنچ رہا ہے؟ لیکن ہماری حکومت اس پر نظر ہی نہیں ڈالتی، اس حکومت سے پہلے جو حکومتیں تھیں، ان میں فی فرد آمدنی بڑھانے کی کوشش ہوئی ہے لیکن اب یہ کوشش رک گئی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اس حکومت میں اعداد وشمار کی حیثیت نہیں'آج سے پہلے کی حکومتیں غربت و افلاس کے خاتمہ کے طریقوں پر ریسرچ پر توجہ دیتی تھیں، الگ الگ ریاستوں میں، الگ الگ شعبوں میں کس طرح سے صحت، افلاس اور آمدنی کی حالت ہے اس پر نظر ہوتی تھی، اس کا جائزہ لیا جاتا تھا، اب نہیں ہوتا کیونکہ اس حکومت کی توجہ صرف ووٹ پر ہے، پارٹی کیسے بڑھے؟ اسی پر دھیان ہوتا ہے، یہ طریقہ بھارت کو کمزور بنائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ اقلیتی وزیر کا احترام نہیں کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ابو صالح شریف، جنہوں نے اقلیتوں کی پسماندگی پر ریسرچ کیا ہے، موجودہ اقلیتی وزیر کے تعلق سے ان کا خیال ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے ہیں، بجٹ کہاں خرچ ہوتا ہے، اس کے اعدادو شمار بھی مبہم ہوتے ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہورہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں نہیں کہتا کہ کوئی سچر کمیٹی کا ذکر کرے، لیکن سچر کمیٹی نے جو ہدایات دی ہے، اس پر دھیان دیا جانا چاہیے'۔

معاشی طور پر کمزور فرد کے لیے ریزرویشن 'ای ڈبلیو ایس ریزرویشن میں مسلمانوں کو 46 فیصد ملنا چاہیے' ابو صالح نے مزید کہا کہ 'مسلمانوں کے لیے مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے خلاف تھے مگر اس حکومت نے ای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد کا ریزرویشن دے دیا ہے، یہ طبقہ کون ہے جن کو رسمی ریزرویشن نہیں تھا، میرے حساب سے 90 فیصد مسلمان، عام ریزرویشن سے باہر ہیں، او بی سی میں جو ملتا ہے، وہ بہت کم ہے اور مسابقت کی وجہ سے کچھ مل نہیں پاتا لیکن اس 10 فیصد ریزرویشن (ای ڈبلیو ایس ) میں 46 فیصد حصہ مسلمانوں کو ملنا چاہیے۔ اگر حکومت سماجی انصاف لانا چاہتی ہے تو پھر مسلمانوں کو ریزرویشن دینا چاہئے'۔

'مودی سے بڑی چوک ہوگئی'

موجودہ اقتصادی صورت حال میں مودی حکومت کے ذریعہ ماہرین اقتصادیات کو دور رکھنے کو چوک قرار دیتے ہوئے ابو صالح شریف نے کہا کہ 'اس حکومت میں ریسرچ کی اہمیت ختم ہوگئی ہے اور یہ ایک چوک ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی اس چوک سے ملک کو نقصان ہوگا۔ اب یہاں ڈاٹا نہیں ملتا، ڈاٹا پر منحصر نظام ختم کردیا گیا ہے، جب ڈاٹا ہی نہیں ہوگا تو پالیسی کیسے بنائیں گے؟ اور اس پر ایسے ڈاٹا بنائے جارہے ہیں جس کا استعمال ہی نہیں، این آر سی اور این پی آر کے ڈاٹا سے ہمیں کیا ملے گا؟'

انہوں نے کہا کہ 'اگر اس 20 فیصد لیبر فورس کو مضطرب کریں گے اور ان کے مفادات کے مزاحم ہوں گے تو اس کا نقصان 20 فیصد نہیں بلکہ 40 فیصد یعنی دگنا ہوگا۔'

اقلیتوں، بالخصوص بھارتی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورت حال پر مبنی سچر کمیٹی کی رپورٹ کے عمل میں ماہر اقتصادیات رکن کے طور پر شامل رہے ابو صالح شریف، جو ان دنوں بھارت میں ہیں، انہوں نے مسلم لیبر فورس کے اضطراب اور اس کے بھارتی معیشت پر اثرات پر اعداد وشمار کی روشنی میں ایک تحقیق کی ہے جسے انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی طور پر شیئر کی۔

it will hurt Indian economy twice if you hurt Muslim labour force
فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ 'صرف ایک انسان کام نہیں کرتا ہے، اس کو سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن کا ایک منہج ہوتا ہے، کئی ہنر کے امتزاج سے ایک چیز کی پیداوار ہوتی ہے تو معیشت میں باہم ربط کا کام ہوتا ہے اور اگر اس کڑی میں مسلم لیبر فورس کو پریشانی آتی ہے تو معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔'

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو

ابو صالح شریف نے مسلم لیبر فورس کی 'بے چینی' کی موجودگی کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ 'موجودہ حکومت میں مسلم لیبر فورس کو زیادہ اضطراب سے گزرنا پڑ رہا ہے، ان کو تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ ملازمتوں میں مواقع میسر نہیں، ہر طرح کے قرض حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے تو بہت ساری وجوہات ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیبر فورس کی پیداواری کم ہو رہی ہے۔ جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر 100 ملین مسلم لیبر پریشان ہوتا ہے تو 100 ملین غیر مسلم یعنی ہندو لیبر فورس بھی متاثر ہوگا، جو ظاہر ہے دگنا نقصان ہے۔'

مسلم لیبر فورس کیوں بے چین ہے؟ ماہر اقتصادیات ابو صالح شریف نے مسلم لیبر فورس کی بے چینی کی وجہ نظام کی جانبداری کو بتایا اور کہا کہ یہ برسوں سے چلا آرہا ہے اور مودی کے دور حکومت میں جانبداری کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ غیر منظم صنعت جس میں مسلم لیبر فورس ہے، اسے گلوبل معیشت کا حصہ بننے نہیں دیا جارہا ہے، گلوبل معیشت کا حصہ بننے کے لیے جس کریڈٹ اور ٹکنالوجی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، ان سے انہیں جان بوجھ کر محروم کر دیا جاتا ہے، خاص طور پر آج کی سیاست میں مسلم لیبر فورس کو ماڈرن معیشت سے جڑنے میں دشواری آرہی ہے، اسی وجہ سے مسلم لیبر فورس بین الاقوامی تجارت سے مربوط ہونے میں سست ہو گیا ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے کہ وسائل کی شراکت میں مذہبی بنیادوں پر جانبداری جو مسلم لیبر فورس کو جھیلنا پڑتا ہے۔ مسلم لیبر فورس میں پیداواری کی قابلیت زیادہ ہے۔'

ڈاکٹر ابو صالح شریف نے مزید دعوی کیا کہ 'مسلم لیبر فورس میں پیداواری کی قابلیت زیادہ ہوتی ہے، اس کی پیداوار دیگر طبقات کے مقابلے 10 اور 20 فیصد زیادہ ہوتی ہے، تعلیم یافتہ (گریجویشن تک) اور غیر تعلیم یافتہ مسلم لیبر فورس کا فائدہ صاف نظر آتا ہے لیکن گریجویشن کے بعد ان کے لیے بازار نامکمل ہوتا ہے، مسابقت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس کی پیداواری زیادہ نظر نہیں آتی۔'

پانچ ٹریلین معیشت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ '5 ٹریلین کی معیشت کا ہدف صحیح نہیں' ڈاکٹر شریف نے مزید کہا کہ 'کسی بھی معیشت میں ہدف بہت اہم ہوتا ہے مگر آج کے عہد میں ہم نمبرز اور اعدادوشمار سے کھیلتے ہیں، 3 ٹریلین کی معیشت کو 5 ٹریلین کا بولا جاسکتا ہے، اس میں قوت خرید کا اختلاف کام کرتا ہے، اسی لئے بھارت کے لیے یہ ہدف صحیح نہیں ہے، ہمیں فی فرد آمدنی (پرکیپیٹا انکم) پر دھیان دینا چاہیے کہ لوگوں کے پاس کتنا پیسہ پہنچ رہا ہے؟ لیکن ہماری حکومت اس پر نظر ہی نہیں ڈالتی، اس حکومت سے پہلے جو حکومتیں تھیں، ان میں فی فرد آمدنی بڑھانے کی کوشش ہوئی ہے لیکن اب یہ کوشش رک گئی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اس حکومت میں اعداد وشمار کی حیثیت نہیں'آج سے پہلے کی حکومتیں غربت و افلاس کے خاتمہ کے طریقوں پر ریسرچ پر توجہ دیتی تھیں، الگ الگ ریاستوں میں، الگ الگ شعبوں میں کس طرح سے صحت، افلاس اور آمدنی کی حالت ہے اس پر نظر ہوتی تھی، اس کا جائزہ لیا جاتا تھا، اب نہیں ہوتا کیونکہ اس حکومت کی توجہ صرف ووٹ پر ہے، پارٹی کیسے بڑھے؟ اسی پر دھیان ہوتا ہے، یہ طریقہ بھارت کو کمزور بنائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ اقلیتی وزیر کا احترام نہیں کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ابو صالح شریف، جنہوں نے اقلیتوں کی پسماندگی پر ریسرچ کیا ہے، موجودہ اقلیتی وزیر کے تعلق سے ان کا خیال ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے ہیں، بجٹ کہاں خرچ ہوتا ہے، اس کے اعدادو شمار بھی مبہم ہوتے ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہورہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں نہیں کہتا کہ کوئی سچر کمیٹی کا ذکر کرے، لیکن سچر کمیٹی نے جو ہدایات دی ہے، اس پر دھیان دیا جانا چاہیے'۔

معاشی طور پر کمزور فرد کے لیے ریزرویشن 'ای ڈبلیو ایس ریزرویشن میں مسلمانوں کو 46 فیصد ملنا چاہیے' ابو صالح نے مزید کہا کہ 'مسلمانوں کے لیے مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے خلاف تھے مگر اس حکومت نے ای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد کا ریزرویشن دے دیا ہے، یہ طبقہ کون ہے جن کو رسمی ریزرویشن نہیں تھا، میرے حساب سے 90 فیصد مسلمان، عام ریزرویشن سے باہر ہیں، او بی سی میں جو ملتا ہے، وہ بہت کم ہے اور مسابقت کی وجہ سے کچھ مل نہیں پاتا لیکن اس 10 فیصد ریزرویشن (ای ڈبلیو ایس ) میں 46 فیصد حصہ مسلمانوں کو ملنا چاہیے۔ اگر حکومت سماجی انصاف لانا چاہتی ہے تو پھر مسلمانوں کو ریزرویشن دینا چاہئے'۔

'مودی سے بڑی چوک ہوگئی'

موجودہ اقتصادی صورت حال میں مودی حکومت کے ذریعہ ماہرین اقتصادیات کو دور رکھنے کو چوک قرار دیتے ہوئے ابو صالح شریف نے کہا کہ 'اس حکومت میں ریسرچ کی اہمیت ختم ہوگئی ہے اور یہ ایک چوک ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی اس چوک سے ملک کو نقصان ہوگا۔ اب یہاں ڈاٹا نہیں ملتا، ڈاٹا پر منحصر نظام ختم کردیا گیا ہے، جب ڈاٹا ہی نہیں ہوگا تو پالیسی کیسے بنائیں گے؟ اور اس پر ایسے ڈاٹا بنائے جارہے ہیں جس کا استعمال ہی نہیں، این آر سی اور این پی آر کے ڈاٹا سے ہمیں کیا ملے گا؟'

Last Updated : Mar 2, 2020, 11:20 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.