سنہ 2020 کے بجٹ سے دیہی بھارت اور کسانوں کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن بجٹ نے عام کسان کو مایوس کیا۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ' حکومت نے زرعی ترقیاتی اسکیم کو نافذ کیا ہے، وزیراعظم فصلوں کی انشورنس اسکیم کے تحت کروڑوں کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے کہا کہ 'حکومت کا مقصد کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کسانوں کے لیے 16 نکاتی فارمولہ کا اعلان کرتی ہے جس سے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔کسانوں کی آمدنی زراعت کے علاوہ مویشی پروری، ماہی پروری، شہد کی مکھیوں کی پروری جیسی نئی نئی تکنیکوں کا ذکر کیا۔
بجٹ تقریر جتنی لمبی تھی، کسانوں کے مفاد اتنے ہی کم رہے۔ مودی حکومت نے پہلی ہی مدت میں خود ہی کہا تھا کہ کسانوں کی آمدنی 2022 تک دوگنی ہوجائے گی، لیکن حکومت نے اس سمت میں اب تک جو کام کیا ہے وہ مایوس کن ہے اور اس ہدف کو مقررہ وقت میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح اگر ہم کسانوں کے لیے پنشن اسکیم پر نظر ڈالیں تو حکومت چالاکی کرتے ہوئے ان کسانوں کو پنشن دینے کی بات کہی ہے جو مقررہ وقت کے دوران تعاون کے طور پر کچھ رقومات جمع کرائیں گے۔ جس سے حکومت کے دعوؤں کا انکشاف ہوتا ہے۔ اس بجٹ میں بھی حکومت نے زراعت اور کاشتکاروں کے لیے 16 نکاتی فارمولہ کا اعلان کیا ہے، اس فارمولے میں کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے 16 طرح کے اقدامات کیے جانے ہیں۔ لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پچھلے بجٹ میں جو اعلانات ہوئے تھے، ان میں سے کتنی فیصد پر زمینی سطح پر کام کیا گیا، اس کا کوئی جائزہ نہیں لیا گیا۔
آل انڈیا کسان تنظیم آئیفا کے قومی کنوینر ڈاکٹر راجارام ترپاٹھی نے کہا کہ جہاں یہ مایوس کن بجٹ زراعت اور کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے، مزید اس سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔
گذشتہ دہائی سے آئی سی یو میں پڑی بھارتی کاشتکاری اور کاشتکاری کو بحال کرنے کی اپنی کوششوں کے حصے کے طور پر ہر حکومت متعدد اعلانات کرتی رہی ہے۔ یہ 16 نکاتی فارمولہ زمینی سطح پر نافذ ہوگا یا اس کا بھی حشر پورنے اعلانات کی طرح ہی ہوں گے؟ کسان کب تک انتظار کریں گے؟
نامیاتی کاشتکاری ( آرگینک طریقے سے کاشتکاری)
نامیاتی کاشتکاری کے نام پر نعرے اور زیرو بجٹ پر ہنگامہ ہو رہا ہے، کیمیائی کھاد کے لیے اسی ہزار کروڑ مختص، اور نامیاتی کاشتکاری کے لیے زیرو بجٹ تو اس سے کسانوں کے مفادات کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
تقریبا 52 فیصد آبادی کاشتکاری کے ذریعے اپنی زندگی کا گزر بسر کر رہی ہے۔لہذا اس شعبے کے لیے الگ بجٹ کا مطالبہ بہت پرانا ہے لیکن ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ حکومت کی ترجیح میں شامل ہے۔ بجٹ سے پہلے حکومت مٹھی بھر صنعت کاروں، تاجروں وغیرہ کی تنظیموں سے صلاح مشورے کرتی ہے، لیکن کسانوں سے کبھی بات نہیں کی جاتی کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے ان کی تجاویز کیا ہیں؟
نامیاتی کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کے لیے، بجٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کیمیائی کاشتکاری کے لیے 80 ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے، لیکن نامیاتی کاشتکاری کے فروغ کے لیے بجٹ میں براہ راست کوئی مالی تعاون کے لیے کچھ نہیں ہے۔
اسی طرح کسانوں کے لیے خصوصی ٹرین چلانے کا اعلان کیا گیا، چند برس قبل وزیر ریلوے لالو یادو نے کسانوں کے لیے ایسی خصوصی ٹرین چلانے کا اعلان کیا تھا، کسان، اپنے لیے ریل ڈھونتے ہی رہ گئے۔ اور لالو جی جیل پہنچ گئے۔ تاہم موجودہ اعلان کے پیچھے بتایا جارہا ہے کہ اس کے ذریعہ، کسانوں کی مصنوعات ملک کے بڑے شہروں یا بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچانا ہے۔ لیکن اس خصوصی ریل کا فائدہ صرف بڑے شہروں میں یا دارالحکومت کے آس پاس رہنے والے گنتی کے بڑے کسانوں کو ہوگا۔
اس کے علاوہ ایک بڑا اعلان یہ بھی کیا گیا ہے کہ کسانوں کی زرعی پیداوار اب ہوائی جہازوں کے ذریعہ ملک و بیرون ملک فروخت ہوگی، یہاں یہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ملک کے عام کسان کے لیے ضلع کی تحصیل اور منڈیاں تک رسائی نہیں ہیں تو، ان کی پہنچ ان گنتی کے ہوائی اڈوں اور بین الاقوامی منڈیوں تک کیسے ممکن ہوگی؟ یہ صرف گمراہ کن اعلان ہے۔ لہذا اس کا زمین پر کوئی خاص اثر نہیں ہوگا'۔
ڈاکٹر ترپاٹھی نے زور دے کر کہا کہ اس بجٹ میں، کساد بازاری پر قابو پانے کے لیے بہت زیادہ چھٹپٹاہٹ ںظر آئی، لیکن اس کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں نظر آیا۔ جب تک دیہی باشندوں کی قوت خرید بڑھ نہیں جاتی ہے، معیشت میں بڑھتی ہوئی لیکویڈیٹی کا مفہوم بے معنی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ زراعت کے لیے استعمال ہونے والے ٹریکٹر کی خریداری کے لیے بینک سے کو 14 فیصد سود ادا کرنا پڑتا ہے، جبکہ ماروتی کار پر سود 6 فیصد ہے۔ اسی طرح توقعات کے مطابق، انکم ٹیکس میں بھی رعایت نہیں دی گئی۔ جبکہ زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس چھوٹ کی گنجائش ہے لیکن زراعت سے آمدنی ظاہر کرنے پر بھی کسانون کو محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے نوٹس یا سمن جاری کیا جاتا ہے۔
بجٹ میں زراعت کے شعبے پر بنائے گئے قرضوں، ان کی شرح سود پر کوئی خصوصی رعایت نہیں دی گئی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد کسانوں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ سبزیاں تیار کرنے والے کاشتکار تو تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کاشتکاروں کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جانا چاہیے تھا، لیکن کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ کسانوں میں مایوسی ہے۔