ٹام آلٹر کو بھلے ہی کوئی ان کے نام سے نہ جانتا ہوں لیکن بالی ووڈ مداحوں کے ذہن میں ٹام آلٹر کی پہنچان ایسے اداکار کے طور پر زندہ ہے جوبالی ووڈ فلموں میں بیشتر اوقات انگریز کا کردار ادا کرتا تھا۔
سپراسٹار راجیش کھنہ کی سال 1969 میں فلم ارادھنا نے ٹام آلٹر کو اتنا متاثر کیا کہ اب بس وہ راجیش کھنہ بننا چاہتے تھے۔
اسی ہفتے انہوں نے اس فلم کو تین مرتبہ دیکھا۔
دوسالوں تک انکے ذہن میں راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگو چلتی رہیں۔
انہوں نے 2009میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ میں راجیش کھنہ کا بہت بڑا فین رہا اور 1970کی دہائی میں ان کے
جیسا ہیروبننا چاہتاتھا ،وہ میرے ہیروتھے۔
ان کا رومانی انداز دل کو چھولیتا تھا۔
بطور ہیرو بننے کا خواب لے کر ٹام آلٹر نے پنے میں ہندستانی فلم اور ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔
ٹام نے 1974 میں ایف ٹی آئی آئی سے گریجویشن کے دوران گولڈ میڈل حاصل کیا۔
اسی دوران انہوں نے نصیر الدین شاہ اور بنجامن گیلانی کے ساتھ ایک کمپنی موٹلی قائم کیا اور ڈرامے کی دنیا میں قدم رکھا۔
مولانا ابو الکلام آزاد پر مبنی تمثیلی ڈارمہ 'مولانا آزاد ایک تمثیل' میں شاندار کردارا دا کر نے کے لیے ٹام الٹر کو ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔
فلم شطرنج کے کھلاڑی میں انہوں نے کیپٹن ویسٹن کا کردار اداکیا تھا اور واجد علی شاہ کے اشعار پڑھے تھے۔
صدمہ نہ پہنچے کوئی میرے جسم زار کو
آہستہ پھول ڈالنا میرے مزار پر
ہرچند کہ خاک سے اٹھا تا فلک گیا
دھو کہ ہے آسمان کا میرے غبار پر
ان کی پیدائش 22 جون 1950 کو اتراکھنڈ کے مسوری میں ہوئی۔
ٹام 18 برس کی عمر تعلیم کی غرض سے امریکی یونیورسٹی چلے گئے لیکن ان کا دل نہیں لگا اور وہ درمیان میں ہی وہاں سے واپس لوٹ آئے۔
اس کے بعد انہوں نے کئی نوکریاں کیں۔
انہوں نے ہریانہ کے سینٹ تھامس اسکول میں ٹیچر کی بھی چھ مہینے تک نوکری کی۔