ضلع اکولہ کی ایک عدالت کے خصوصی جج جسٹس ایس ایس جادھو نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام(یو اے پی اے) اور بامبے پولیس ایکٹ کے تحت تین ملزمین کے خلاف ایک کیس میں یہ بات کہی۔
سماعت کے دوران خصوصی جج جسٹس ایس ایس جادھو نے کہا کہ: ''ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملزم رزاق نے گؤکشی پر پابندی کو لے کر شر کے ذریعے حکومت اور چند ہندو تنظیموں کے خلاف اپنا غصہ ظاہر کیا، بے شک اس نے جہاد لفظ کا استعمال کیا لیکن اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ محض جہاد لفظ استعمال کرنے سے اسے دہشت گرد قرار دے دیا جائے یہ صحیح نہیں ہے''۔
کورٹ نے اے ٹی ایس کو سمجھایا 'جہاد' کا مطلب!
کورٹ نے اے ٹی ایس کو بتایا کہ جہاد ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب 'جدو جہد' کرنا ہے اس لیے اگر کوئی جہاد لفظ کا استعمال کرے تو اسے دہشت گرد کہنا صحیح نہیں ہے۔
کیا تھا پورا معاملہ؟
ضلع اکولہ کے پساد علاقے میں 25 ستمبر سنہ 2015 کو بقرعید کے تہوار کے موقع پر ایک مسجد کے باہر پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزام میں عبدالرزاق(24)، شعیب خان(24) اور سلیم خان(26) پر تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق جب رزاق پہنچا تو تب اس نے ایک چاقو نکالا اور اس نے ڈیوٹی پر تعینات دو پولیس اہلکاروں پر حملہ کردیا اس نے حملے سے پہلے کہا تھا کہ بیف پر پابندی کے سبب وہ پولیس اہلکاروں کو مار ڈالے گا۔
انسداد دہشت گردی دستہ ( اےٹی ایس) نے دعوی کیا تھا کہ یہ لوگ مسلم نوجوانوں کو عسکریت پسندانہ تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے اکساتے تھے۔
پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزام میں رزاق کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے تین برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، چونکہ وہ 25 ستمبر سنہ 2015 سے جیل میں تھا اور قید کے تین برس مکمل چکے ہیں اس لیے عدالت کے حکم کے بعد اسے رہا کردیا گیا۔