ETV Bharat / briefs

بی ایس جین نے شاعری میں فارسی اور عربی کے الفاظ استعمال نہیں کیے - میرٹھ

شعبہء اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ کے منشی پریم چند سیمینار ہال میں میرٹھ کے معروف شاعر مرحوم بی ایس جین جوہرؔ کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔

منشی پریم چند سیمینار ہال میں میرٹھ کے معروف شاعر مرحوم بی ایس جین جوہرؔ کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ
author img

By

Published : Jun 29, 2019, 8:13 PM IST

اس تعزیتی جلسہ کی صدارت پروفیسر سید احمد شمیم نے کی اور مہمانان میں پروفیسر خالد حسین خاں، محترم نپن جین شریک تھے۔

تعزیتی جلسہ کا آغاز شعبہ کے طالب علم اسرار احمد نے مرحوم بی ایس جین جوہر ؔ کی خوبصورت غزل سے کیا۔بعداذاں ڈاکٹر شاداب علیم نے معروف شاعر محترم بی ایس جین جوہر ؔ کا تعاروف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترم جوہرؔ جیسے شاعر،ملنسار اوربا کردار انسان کبھی کبھی پیدا ہوتے ہے۔

شاعری کے ذریعے ان کی لگن و کام جو انھوں نے اپنی زندگی میں جاری رکھے اور غریبوں کو آگے بڑھانے میں مدد کی ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری انکے رشتہ داروں اور دوستوں کی بنتی ہے کہ وہ مرحوم بی ایس جین جوہر ؔکے کام کو آگے بڑھائیں۔

اس موقع پر پروفیسر خالد حسین نے کہا کہ مرحوم بی ایس جین جوہرؔایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے تاجر بھی تھے۔ان کے ساتواں شعری مجموعہ سے ہندو مسلم یکجہتی کی نمائندگی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرحوم جین نے اپنی شاعری میں کبھی فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔

مرحوم کے بیٹے محترم نپن جین نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تاجراور خوش اخلاق تاجر بھی تھے۔ ان کی شاعری سے محبت کا پیغام جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی ہندو، مسلمان میں فرق نہیں کیا۔

منشی پریم چند سیمینار ہال میں میرٹھ کے معروف شاعر مرحوم بی ایس جین جوہرؔ کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ

پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ان کا چلے جانا ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ محترم بی ایس جین جوہرؔ اردو کے بڑے ادیب اور بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار،دیش بھکت اورسچے انسان تھے۔ ان کے کلام پر جب رسرچ ہوگی تو ادب کے نئے نئے گوشے سامنے آئیں گے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سید احمد شمیم نے کہا کہ استاد شاگردی کا رشتہ اب کمزور ہوتا جا رہا ہے۔آج ایک دوسرے سے محبت، ہمدردی، انسیت جیسی صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔یہاں پر بہت سی زبانیں ہیں جن کے ملنے سے ایک گلدستہ بنتا ہے۔ شاعری کی طرح اردو افسانے کی رسرچ کے لیے بھی کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔لیکن آج اسکالررسرچ پر ہونے والی محنت سے دور بھاگ رہے ہیں۔اردو زبان پورے ملک کی تہذیبی زبان ہے۔ اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر فرحت حسین خوشدل(ہزاری باغ) کی مرتب کردہ کتاب 'انتخاب ِ کلامِ جوہر' اور فرحت حسین خوشدل کی ہندی نظموں کا مجموعہ پشپانجلی(جسے انہوں نے بی ایس جین جوہر کے نام کیا ہے)کا اجرا بھی مہمانوں کے ہا تھوں عمل میں آیا۔

مہمانان کے لیے استقبالیہ کلمات ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے ادا کیا اور تعارف ڈاکٹر شاداب علیم، نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے بحسن و خوبی ادا کیے۔

اس تعزیتی جلسہ کی صدارت پروفیسر سید احمد شمیم نے کی اور مہمانان میں پروفیسر خالد حسین خاں، محترم نپن جین شریک تھے۔

تعزیتی جلسہ کا آغاز شعبہ کے طالب علم اسرار احمد نے مرحوم بی ایس جین جوہر ؔ کی خوبصورت غزل سے کیا۔بعداذاں ڈاکٹر شاداب علیم نے معروف شاعر محترم بی ایس جین جوہر ؔ کا تعاروف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترم جوہرؔ جیسے شاعر،ملنسار اوربا کردار انسان کبھی کبھی پیدا ہوتے ہے۔

شاعری کے ذریعے ان کی لگن و کام جو انھوں نے اپنی زندگی میں جاری رکھے اور غریبوں کو آگے بڑھانے میں مدد کی ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری انکے رشتہ داروں اور دوستوں کی بنتی ہے کہ وہ مرحوم بی ایس جین جوہر ؔکے کام کو آگے بڑھائیں۔

اس موقع پر پروفیسر خالد حسین نے کہا کہ مرحوم بی ایس جین جوہرؔایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے تاجر بھی تھے۔ان کے ساتواں شعری مجموعہ سے ہندو مسلم یکجہتی کی نمائندگی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرحوم جین نے اپنی شاعری میں کبھی فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔

مرحوم کے بیٹے محترم نپن جین نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تاجراور خوش اخلاق تاجر بھی تھے۔ ان کی شاعری سے محبت کا پیغام جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی ہندو، مسلمان میں فرق نہیں کیا۔

منشی پریم چند سیمینار ہال میں میرٹھ کے معروف شاعر مرحوم بی ایس جین جوہرؔ کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ

پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ان کا چلے جانا ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ محترم بی ایس جین جوہرؔ اردو کے بڑے ادیب اور بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار،دیش بھکت اورسچے انسان تھے۔ ان کے کلام پر جب رسرچ ہوگی تو ادب کے نئے نئے گوشے سامنے آئیں گے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سید احمد شمیم نے کہا کہ استاد شاگردی کا رشتہ اب کمزور ہوتا جا رہا ہے۔آج ایک دوسرے سے محبت، ہمدردی، انسیت جیسی صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔یہاں پر بہت سی زبانیں ہیں جن کے ملنے سے ایک گلدستہ بنتا ہے۔ شاعری کی طرح اردو افسانے کی رسرچ کے لیے بھی کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔لیکن آج اسکالررسرچ پر ہونے والی محنت سے دور بھاگ رہے ہیں۔اردو زبان پورے ملک کی تہذیبی زبان ہے۔ اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر فرحت حسین خوشدل(ہزاری باغ) کی مرتب کردہ کتاب 'انتخاب ِ کلامِ جوہر' اور فرحت حسین خوشدل کی ہندی نظموں کا مجموعہ پشپانجلی(جسے انہوں نے بی ایس جین جوہر کے نام کیا ہے)کا اجرا بھی مہمانوں کے ہا تھوں عمل میں آیا۔

مہمانان کے لیے استقبالیہ کلمات ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے ادا کیا اور تعارف ڈاکٹر شاداب علیم، نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے بحسن و خوبی ادا کیے۔

Intro:شعبہء اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ کے منشی پریم چند سیمینار ہال میں میرٹھ کے معروف شاعر مرحوم بی ایس جین جوہرؔ کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت پروفیسر سید احمد شمیم نے کی اور مہمانان میں پروفیسر خالد حسین خاں، محترم نپن جین شریک ہوئے


Body:تعزیتی جلسہ کا آغاز شعبہ کے طالب علم اسرار احمد نے مرحوم بی ایس جین جوہر ؔ کی خوبصورت غزل سے کیا۔بعداذاں ڈاکٹر شاداب علیم نے معروف شاعر محترم بی ایس جین جوہر ؔ کا تعاروف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترم جوہرؔ جیسے شاعر،ملنسار اوربا کردار انسان کبھی کبھی پیدا ہوتے ہے۔شاعری کے ذریعے ان کی لگن و کام جو انھوں نے اپنی زندگی میں جاری رکھے اور غریبوں کو آگے بڑھانے میں مدد کی ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری انکے رشتہ داروں اور دوستوں کی بنتی ہے کہ وہ مرحوم بی ایس جین جوہر ؔکے کام کو آگے بڑھائیں۔

اس موقع پر پروفیسر خالد حسین نے کہا کہ مرحوم بی ایس جین جوہرؔایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے تاجر بھی تھے۔ان کے ساتواں شعری مجموعہ سے ہندو مسلم یکجہتی کی نمائندگی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرحوم جین نے اپنی شاعری میں کبھی فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال نہیں کیا.

مرحوم کے بیٹے محترم نپن جین نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تاجراور خوش اخلاق تاجر بھی تھے۔ ان کی شاعری سے محبت کا پیغام جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی ہندو، مسلمان میں فرق نہیں کیا۔ 
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ان کا چلے جانا ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ محترم بی ایس جین جوہرؔ اردو کے بڑے ادیب اور بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار،دیش بھکت اورسچے انسان تھے۔ ان کے کلام پر جب رسرچ ہوگی تو ادب کے نئے نئے گوشے سامنے آئیں گے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سید احمد شمیم نے کہا کہ استاد شاگردی کا رشتہ اب کمزور ہوتا جا رہا ہے۔آج ایک دوسرے سے محبت، ہمدردی، انسیت جیسی صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔یہاں پر بہت سی زبانیں ہیں جن کے ملنے سے ایک گلدستہ بنتا ہے۔ شاعری کی طرح اردو افسانے کی رسرچ کے لیے بھی کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔لیکن آج اسکالررسرچ پر ہونے والی محنت سے دور بھاگ رہے ہیں۔اردو زبان پورے ملک کی تہذیبی زبان ہے۔ اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر فرحت حسین خوشدل(ہزاری باغ) کی مرتب کردہ کتاب ”انتخاب ِ کلامِ جوہر“اور فرحت حسین خوشدل کی  ہندی نظموں کا مجموعہ پشپانجلی(جسے انہوں نے بی ایس جین جوہر کے نام کییا ہے)کا اجرا بھی مہمانوں کے ہا تھوں عمل میں آیا۔

          مہمانان کے لیے استقبالیہ کلمات ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے ادا کیا اور تعارف ڈاکٹر شاداب علیم، نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے بحسن و خوبی ادا کیے۔



Conclusion:بائٹ : پروفیسر خالد حسین
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.