ETV Bharat / briefs

'دنیا بھر میں سات کروڑ سے زائد افراد بے گھر'

آج پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس کے مطابق 2018 کے اواخر تک دنیا بھر میں نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد تقریبا 8 کروڑ ہو گئی ہے، جن میں سے تقریبا دو کروڑ 60 لاکھ افراد بحیثیت مہاجر زندگی گزار رہے ہیں۔

'دنیا بھر سے سات کروڑ سے زائد افراد بے گھر'
author img

By

Published : Jun 20, 2019, 1:14 PM IST

رپورٹ کے مطابق ستّر برسوں کے دوران پہلی بار مختلف جنگوں، تنازعات اور تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونے اور کیمپوں میں پناہ لینے والوں کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے۔گذشتہ برس 23 لاکھ افراد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

گذشتہ 20برسوں میں اس تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو اہے۔

سروے میں واضح ہوا کہ 37 ہزار افراد یومیہ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

بے گھر اور بے یارو مدد گار افراد کو پناہ دینے والے ممالک میں ترکی سرِفہرست ہے جہاں پناہ گزینوں کی تعداد 37 لاکھ ہے جبکہ پاکستان دوسرے نمبر ہے جہاں اس وقت پناہ گزینوں کی تعداد14 لاکھ ہے۔ یوگینڈا میں 12 لاکھ، سوڈان میں 11 لاکھ جبکہ جرمنی میں بھی 11 لاکھ افراد پناہ گزیں ہیں۔

دنیا کی آبادی کے تناسب سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ 1992 میں پناہ لینے والوں کی تعداد سب سے زیادہ 3.7 افراد فی ہزار تھی جبکہ سنہ 2018 کے اختتام پر یہ تعداد دگنی سے بھی تجاوز کر گئی یعنی 9.3 افراد فی ہزار تھی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق وینزویلا کے شہریوں کو پناہ دینے والے ممالک کے مطابق تقریباً چار ملین افراد نے وینزویلا سے نقل مکانی کی ہے جو گذشتہ چند برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

رپورٹ میں تین بڑی جماعتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جنھیں جنگوں، تنازعات اور تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا۔ سنہ 2018 میں ایسے پناہ گزینوں کی تعداد دنیا بھر میں دو کروڑ 59 لاکھ تک پہنچ گئی تھی جو کہ سنہ 2017 کے مقابلے میں پانچ لاکھ زیادہ ہے۔ اس تعداد میں 55 لاکھ فلسطینی پناہ گزین بھی شامل ہیں۔

دوسری جماعت ان 35 لاکھ تارکین وطن کی ہے جنھوں نے اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں پناہ کی درخواست دی تھی لیکن ابھی ان کی درخواست پر کاروائی نہیں ہوئی۔

تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھیں ملک کے اندر ہی نقل مکانی کرنا پڑا۔ عالمی سطح پر ان کی تعداد 34 لاکھ ہے۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے دو تہائی سے بھی زائد کا تعلق شام، افغانستان، جنوبی سوڈان، میانمار اور صومالیہ سے ہے۔


آپ کو بتا دیں کہ شام کے پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ 67 لاکھ ہے جس کے بعد افغانستان ہے جس کے پناہ گزینوں کی تعداد 27 لاکھ ہے۔

سنہ 2018 میں صرف 92 ہزار چار سو پناہ گزینوں کو واپس ان کے گھروں میں نئے سرے سے بسایا جا چکا ہے۔

زبردستی نقل مکانی کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جو سنہ 2009 میں چار کروڑ 33 لاکھ تھی۔ شام میں جنگ کی وجہ سے اس میں زیادہ اضافہ سنہ 2012 اور سنہ 2015 کے دوران ہوا۔

تاہم عالمی سبح پر دوسرے تنازعات بھی پیدا ہوئے اور اب بھی جاری ہیں۔

سنہ 2017 کے اختتام پر میانمار کی رخائن ریاست میں فوجی آپریشن کے بعد روہنگیا پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد بنگلہ دیش پہنچ گئی اور وہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔

سنہ 2018 میں 15 لاکھ ایتھوپین شہری پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ تعداد رواں برس سب سے زیادہ رہی جو کہ ابتدائی تعداد کے مقابلے میں 98 فی صد ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ متنازع علاقوں میں مقیم مختلف برادریوں کے درمیان جھگڑوں سے پیدا ہونے والا تشدد ہے۔

رپورٹ کے مطابق ستّر برسوں کے دوران پہلی بار مختلف جنگوں، تنازعات اور تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونے اور کیمپوں میں پناہ لینے والوں کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے۔گذشتہ برس 23 لاکھ افراد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

گذشتہ 20برسوں میں اس تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو اہے۔

سروے میں واضح ہوا کہ 37 ہزار افراد یومیہ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

بے گھر اور بے یارو مدد گار افراد کو پناہ دینے والے ممالک میں ترکی سرِفہرست ہے جہاں پناہ گزینوں کی تعداد 37 لاکھ ہے جبکہ پاکستان دوسرے نمبر ہے جہاں اس وقت پناہ گزینوں کی تعداد14 لاکھ ہے۔ یوگینڈا میں 12 لاکھ، سوڈان میں 11 لاکھ جبکہ جرمنی میں بھی 11 لاکھ افراد پناہ گزیں ہیں۔

دنیا کی آبادی کے تناسب سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ 1992 میں پناہ لینے والوں کی تعداد سب سے زیادہ 3.7 افراد فی ہزار تھی جبکہ سنہ 2018 کے اختتام پر یہ تعداد دگنی سے بھی تجاوز کر گئی یعنی 9.3 افراد فی ہزار تھی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق وینزویلا کے شہریوں کو پناہ دینے والے ممالک کے مطابق تقریباً چار ملین افراد نے وینزویلا سے نقل مکانی کی ہے جو گذشتہ چند برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

رپورٹ میں تین بڑی جماعتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جنھیں جنگوں، تنازعات اور تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا۔ سنہ 2018 میں ایسے پناہ گزینوں کی تعداد دنیا بھر میں دو کروڑ 59 لاکھ تک پہنچ گئی تھی جو کہ سنہ 2017 کے مقابلے میں پانچ لاکھ زیادہ ہے۔ اس تعداد میں 55 لاکھ فلسطینی پناہ گزین بھی شامل ہیں۔

دوسری جماعت ان 35 لاکھ تارکین وطن کی ہے جنھوں نے اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں پناہ کی درخواست دی تھی لیکن ابھی ان کی درخواست پر کاروائی نہیں ہوئی۔

تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھیں ملک کے اندر ہی نقل مکانی کرنا پڑا۔ عالمی سطح پر ان کی تعداد 34 لاکھ ہے۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے دو تہائی سے بھی زائد کا تعلق شام، افغانستان، جنوبی سوڈان، میانمار اور صومالیہ سے ہے۔


آپ کو بتا دیں کہ شام کے پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ 67 لاکھ ہے جس کے بعد افغانستان ہے جس کے پناہ گزینوں کی تعداد 27 لاکھ ہے۔

سنہ 2018 میں صرف 92 ہزار چار سو پناہ گزینوں کو واپس ان کے گھروں میں نئے سرے سے بسایا جا چکا ہے۔

زبردستی نقل مکانی کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جو سنہ 2009 میں چار کروڑ 33 لاکھ تھی۔ شام میں جنگ کی وجہ سے اس میں زیادہ اضافہ سنہ 2012 اور سنہ 2015 کے دوران ہوا۔

تاہم عالمی سبح پر دوسرے تنازعات بھی پیدا ہوئے اور اب بھی جاری ہیں۔

سنہ 2017 کے اختتام پر میانمار کی رخائن ریاست میں فوجی آپریشن کے بعد روہنگیا پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد بنگلہ دیش پہنچ گئی اور وہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔

سنہ 2018 میں 15 لاکھ ایتھوپین شہری پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ تعداد رواں برس سب سے زیادہ رہی جو کہ ابتدائی تعداد کے مقابلے میں 98 فی صد ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ متنازع علاقوں میں مقیم مختلف برادریوں کے درمیان جھگڑوں سے پیدا ہونے والا تشدد ہے۔

Intro:Body:

fazle 


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.