واضح رہے کہ کولکاتا این آر ایس اسپتال میں ڈاکٹروں پر حملے اور سابق مس یونیورس انڈیا کے ساتھ بدسلوکی کے معاملے میں مسلم نوجوان ملوث پائے گئے تھے.
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو لکھے گئے کھلے خط کو لیکر تنازعہ شروع ہو گیا ہے ۔اس خط کو ایک انگریزی نیوز چینل کے ذریعہ منفی رخ دئیے جانے سے کولکاتا کے مسلمان سوشل میڈیا پر اپنی برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں کولکاتا کے مسلمانوں کی ایک جماعت نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو ایک کھلا خط لکھ کر حالیہ دنوں پیش آئے چند واقعات میں مسلمانوں کے ملوث ہونے پر شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔
لیکن اس خط کو لیکر اس وقت تنازعہ پیدا ہو گیاجب کولکاتا کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس قدم سے ناخوش ہے اور مختلف طرح سے اپنی برہمی کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا پر بھی ان 46 مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا اس کھلے خط میں نام درج ہے ۔اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے تبسم صدیقہ سے بات کی جن کا نام اس کھلے خط میں درج ہے۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو جو کھلا خط لکھا گیا اس کا مقصد یہ تھا کہ کچھ مسلم نوجوانوں جو کم پڑھے لکھے ہیں اور ان میں معاشرے کو لیکر ان بیداری نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تمام مسلمان ایسے نہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو غیر تعلیم یافتہ ہے اور پسماندہ ہے ان کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر وہ مصروف رہیں گے تو ظاہر سی بات اس طرح کا کام نہیں کریں گے ۔
سماجی کارکن منظر جمیل نے بتایا کہ جن لوگوں نے کھلا خط لکھ کر مسلمانوں کی جانب سے شرمندگی کا اظہار کیا ہے ہوسکتا ہے ان کی نیت اچھی ہو لیکن یہ لوگ اس بیانیہ کا شکار ہو گئے جو اکثریتی طبقہ کا نظریہ ہے کہ ہر جرم کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ جرم اور مجرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان لوگوں نے گزشتہ ایک ماہ سے کانکی نارہ میں جاری مسلمانوں پر ظلم و بربریت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔
جمیل منظرکے مطابق ان کی جانب سے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ انہوں نے دو ایک واقعات کے لئے پوری مسلم برادری کو شرمندہ کیا ہے جو بالکل درست نہیں ہے۔