ETV Bharat / briefs

'مسلم اکثریتی لکش دیپ کی بھگوا کرن کی کوشش'

author img

By

Published : May 26, 2021, 11:05 PM IST

Updated : Aug 12, 2022, 1:25 PM IST

انڈین یونین مسلم لیگ کے رہنما کا کہنا ہے جہاں 99 فیصد مسلمان مقیم ہیں وہاں گوشت کے استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آنگن واڑی اور ہیلتھ ورکرس سمیت مقامی لوگوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔

Lakshadweep: Parties oppose "anti-people" reforms of Administrator
Lakshadweep: Parties oppose "anti-people" reforms of Administrator

انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کے قومی آرگنائزنگ سکریٹری اور رکن پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے الزام لگایا کہ لکش دیپ ایک خوبصورت سرزمین ہے جہاں 99 فیصد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں اور اس وقت بی جے پی لکش دیپ میں زہریلے بیجوں کو بو رہی ہے۔

انہوں نے آج جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ حکومت اب یہاں غنڈا ایکٹ کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر احتجاج کی آوازوں کو دبانے کے لیے ان کے پاس اگر قوانین موجود ہوں گے تو معاملات آسان ہوجائیں گے۔ لکش دیپ میں اس کے خلاف سخت احتجاج ہوچکے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت نے لکش دیپ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مقررہ کردہ پرفل کھوڈا پٹیل کو جلد از جلد جزیرے میں فرقہ واریت پھیلانے کا کام سونپاگیا ہے۔ لکشدیپ کا ہمیشہ ایک جرائم سے پاک چہرہ رہا ہے۔ یہ ایک عظیم تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی رکھتا ہے۔ جس علاقے میں 99 فیصد مسلمان رہتے ہیں وہاں گوشت کے استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔آنگن واڑی اور وہاں کام کرنے والے ہیلتھ ورکرس سمیت مقامی لوگوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ ماہی گیری ان کا بنیادی ذریعہ معاش ہے۔ یہاں غیر معمولی باتوں پر ماہی گیری کے خلاف مقدمات درج کرنا ایک عام رواج بن گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بے پور بندرگاہ ان کے لیے سامان خریدنے کے لیے قریب ترین ساحل ہے۔ اس کے بجائے اسے منگلور تبدیل کرنے کا عمل مکمل ہونے کے قریب ہے۔ لکش دیپ میں سانب نہیں ہیں، کوئی کوا نہیں ہے، لیکن مرکزی حکومت کے تعاون سے اب سانپ کے کاٹنے کے زہر سے زیادہ فرقہ وارانہ زہر پھیلانے کا کام جاری ہے۔

انڈین یونین مسلم لیگ اس اقدام کی سخت مذمت کرتی ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کے قومی آرگنائزنگ سکریٹری نے آخرمیں کہا ہے کہ میں نے مرکزی حکومت کے ذریعہ بیوروکریسی کے اس ناجائز عمل کے بارے میں 13فروری 2021کو پارلیمنٹ میں متنبہ کیا تھا۔ جس میں میں نے کہا تھا کہ لکشدیب میں کچھ ایسے اقدام کئے جارہے ہیں جس سے حکومت کے پالیسیوں کے تعلق سے کچھ خراب اشارے سامنے آر ہے ہیں۔

یو این آئی

انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کے قومی آرگنائزنگ سکریٹری اور رکن پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے الزام لگایا کہ لکش دیپ ایک خوبصورت سرزمین ہے جہاں 99 فیصد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں اور اس وقت بی جے پی لکش دیپ میں زہریلے بیجوں کو بو رہی ہے۔

انہوں نے آج جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ حکومت اب یہاں غنڈا ایکٹ کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر احتجاج کی آوازوں کو دبانے کے لیے ان کے پاس اگر قوانین موجود ہوں گے تو معاملات آسان ہوجائیں گے۔ لکش دیپ میں اس کے خلاف سخت احتجاج ہوچکے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت نے لکش دیپ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مقررہ کردہ پرفل کھوڈا پٹیل کو جلد از جلد جزیرے میں فرقہ واریت پھیلانے کا کام سونپاگیا ہے۔ لکشدیپ کا ہمیشہ ایک جرائم سے پاک چہرہ رہا ہے۔ یہ ایک عظیم تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی رکھتا ہے۔ جس علاقے میں 99 فیصد مسلمان رہتے ہیں وہاں گوشت کے استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔آنگن واڑی اور وہاں کام کرنے والے ہیلتھ ورکرس سمیت مقامی لوگوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ ماہی گیری ان کا بنیادی ذریعہ معاش ہے۔ یہاں غیر معمولی باتوں پر ماہی گیری کے خلاف مقدمات درج کرنا ایک عام رواج بن گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بے پور بندرگاہ ان کے لیے سامان خریدنے کے لیے قریب ترین ساحل ہے۔ اس کے بجائے اسے منگلور تبدیل کرنے کا عمل مکمل ہونے کے قریب ہے۔ لکش دیپ میں سانب نہیں ہیں، کوئی کوا نہیں ہے، لیکن مرکزی حکومت کے تعاون سے اب سانپ کے کاٹنے کے زہر سے زیادہ فرقہ وارانہ زہر پھیلانے کا کام جاری ہے۔

انڈین یونین مسلم لیگ اس اقدام کی سخت مذمت کرتی ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کے قومی آرگنائزنگ سکریٹری نے آخرمیں کہا ہے کہ میں نے مرکزی حکومت کے ذریعہ بیوروکریسی کے اس ناجائز عمل کے بارے میں 13فروری 2021کو پارلیمنٹ میں متنبہ کیا تھا۔ جس میں میں نے کہا تھا کہ لکشدیب میں کچھ ایسے اقدام کئے جارہے ہیں جس سے حکومت کے پالیسیوں کے تعلق سے کچھ خراب اشارے سامنے آر ہے ہیں۔

یو این آئی

Last Updated : Aug 12, 2022, 1:25 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.