ETV Bharat / briefs

جیٹ ایئرویز کو بچائیے ورنہ ۔۔

سینئر بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے ٹویٹ کر نریندر مودی سے کہا کہ آپ کے دو وزیر اسپائس جیٹ کو جیٹ ایئر ویز کا کاروبار سونپ دینا چاہتے ہیں،آپ اسے روکیے، ورنہ بی جے پی کو انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

جیٹ ایئرویز
author img

By

Published : Apr 27, 2019, 10:55 AM IST

Updated : Apr 27, 2019, 11:54 AM IST

جیٹ ایئر ویز کی سروسز بند ہونے کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر انتخابات کی سرگرمیوں کی وجہ سے لوگوں کی نظر کم پڑی ہے، اس دوران دو بڑی باتیں سامنے آئیں، جس کا نچوڑ یہ ہے کیا کہیں یہ سرمای داری کا کھیل تو نہیں چل رہا ہے؟

سینئر بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے شہری ہوا بازی کے وزیر سریش پربھو کو اس تعلق سے خط لکھا تھا اور بعد میں ٹویٹ کر نریندر مودی کو آگاہ کیا تھاکہ آپ کے دو وزرا اسپائس جیٹ کو جیٹ ایئر ویز کا کاروبار سونپ دینا چاہتے ہیں، یہ غلط ہو سکتا ہے، اس کے پیچھے کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے، آپ اسے روکیے،ورنہ بی جے پی کو انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

اسی دوران دوسری ہوائی کمپنیاں انڈیگو اور ٹاٹا وستارا نے حکومت کو ایک خط لکھا کہ جیٹ کے بند ہونے کے بعد جو سلاٹ خالی ہوئے ہیں اس کو جس طرح سے الاٹ کیا جا رہا ہے اس میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے، اس بارے میں جو 2003 کا جو قانون ہے اس کی بھی خلاف ورزی ہو رہا ہے۔

نریش گوئل کی کہانی تو ختم ہو گئی، دلیل یہ دی گئی کہ ایئر لائن کا دھندہ مہنگا ہو گیا تھا، ایندھن کے اخراجات کافی بڑھ گئے تھے، قرض بہت لے لیا تھا اور مہنگا آپریشن چلا رہے تھے، اب سمجھ میں آیا کہ وہ اس کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہے تھے بلکہ خود بچ کر نکلنا چاہ رہے تھے۔

دوسرے کردار کی بات کریں تو جیٹ میں پچاس فیصد سے زیادہ شیئر ایس بی آئی اور ایک سرکاری ادارے این آئی آئی ایف کے پاس ہے، اب یہاں قرض دینے والوں کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ اسے پہلے ہی پتہ تھا کہ پتہ تھا کہ ایئر لائن ڈوب رہی ہے، ایسی صورت میں یا تو آپ نریش گوئل سے شیئر فروخت کرواتے، اس سے پیسے وصول کرتے یا انہیں نکال باہر کرتے اور ایئر لائن کو بچاتے، لیکن ایس بی آئی نے وقت پر ایکشن نہیں لیا۔

جب بحران بڑھ گیا تو ایس بی آئی نے کہا کہ ہم نئے سرمایہ دار لائیں گے اور ضرورت پڑی تو 1000-1500 کروڑ ڈال بھی دیں گے، لیکن ایئر لائنز اس کی سكيوٹی کی گارنٹی دےگی تب ہی۔

لیکن ایس بی آئی کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس وجہ سے ہی ایئر لائن ڈوبی ہے اور اس کا بھی پیسہ ڈوبے گا۔

حکومت نے اس سے یہ لکھ کر نہیں کہا کہ آپ اس کمپنی کو بچائیے، اس کی قیمت نہ گر جائے اور 20 ہزار ملازمین اور ان کے خاندان کے رکن یعنی تقریبا ایک لاکھ لوگ مصیبت میں نہ پھنس جائیں اس کا کچھ اقدامات کیجیے، لہذا ایس بی آئی نے کچھ نہیں کیا، اس نے اپنی کردار نہیں ادا کیا اور جیٹ ایئر ویز بند ہو گئی۔

اسپائس جیٹ کے پاس بوئنگ ہیں، جیٹ کے پاس بھی بوئنگ تھا۔ تو اسپائس جیٹ کو کچھ سلاٹ ممبئی اور دہلی کے پرائیویٹ ایئر پورٹ آپریٹر نے دے دیے اور پالیسی میں یہ چینج کر دیا کہ اب سلاٹ انہیں ہی ملیں گے جن کے پاس نئے ہوائی جہاز ہوں گے۔

نئے ہوائی جہاز لانے میں نئی ایئر لائنز کو وقت درکار ہوتا ہے لیکن اس دوران اسپائس جیٹ نے گراؤنڈیڈ طیارے میں سے کچھ لے لئے اور کچھ ہوائی جہاز اور آنے تھے، اعلان کیا کہ اگلے دس دنوں میں ہم طیاروں کی تعداد میں اضافہ کر لیں گے اور بزنس کلاس بھی شروع کر دیں گے۔

اسپائس جیٹ کے پاس اب جیٹ کے بند ہوئی سلاٹ کا بڑا حصہ اور کاروبار جا رہا ہے، اس پر انڈیگو اور وستارا نے سخت اعتراض کیا، یہ خبر میڈیا میں شائع ہوئی اگرچہ نام نہیں لیا گیا لیکن اسپائس جیٹ پر ہی حملہ تھا، سب جگہ بحث ہو گئی، سبرامنیم سوامی نے تو نام ہی لیا۔

ابھی اسپائس جیٹ کے مالک اجے سنگھ پر آتے ہیں، وہ کون ہیں؟

اجے سنگھ ایک کامیاب تاجر ہیں، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم بیک گراؤنڈ ہے لیکن کافی وقت سے بی جے پی سے منسلک ہیں، یہ پرمود مہاجن کے ساتھ کام کرتے تھے، مارن نے جب اسپائس جیٹ کو خریدا اور یہ ڈوب گیا تو اجے سنگھ نے اسے خرید لیا اور اسے نئی زندگی دی، پچھلی بار یعنی 2014 میں 'اب کی بار مودی حکومت' کا نعرہ بھی اجے سنگھ کا ہی گڑھا ہوا تھا۔

وہ مسلسل بی جے پی کے ساتھ کام کرتے رہے، سوامی کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تعصب ہو رہا ہے، رول بیسڈ کام نہیں ہو رہا ہے، اسپائس جیٹ کی مسابقتی ایئر لائنز بھی یہی کر رہی ہیں۔

ہمیں یہ کہنا ہے کہ ابھی انتخابات کے کی بھاگ دوڑ میں مسافروں کو تکلیف نہ ہو، کرائے میں اضافہ نا ہو۔
لیکن حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم جیٹ سلاٹ دوسری ایئر لائنز کو دےیں گے، اس سے ہوائی سفر کا بحران کا حل نکل جائے گا، حکومت نے کہا کہ یہ نظام تین ماہ کا ہی ہے اور ہم بعد میں اسے ریویو کریں گے۔

لیکن ایک بار سلاٹ پر قبضہ ہو جانے پر آپ ایئر لائنز کو اچانک اس ہٹا نہیں سکتے ہیں، نئی ایئر لائنز کو سلاٹ دینے میں دشواریاں نظر آئیں اور کہا گیا کہ انہیں طیارے لیز پر نہیں ملیں گے ۔

ایسی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ٹیلی کام اور پاور سیکٹر کی طرح سول ایوی ایشن سیکٹر مسلسل بحران سے دوچار رہا، اس بحران کو اور بڑھا دیا گیا. سلاٹ دینے میں حکومت نے جو قدم اٹھایا اس تعصب کی بو آ رہی ہے، یہ بات ہم نہیں بلکہ سارے شیئر ہولڈر کہہ رہے ہیں۔

حکومت کو لگا کہ شاید انتخابات کے شور میں اس پر زیادہ بحث نہیں ہوگی، اس کے پہلے آئی ایل ایف ایس میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، آئی ایل ایف ایس نیم سرکاری کمپنی تھی۔

حکومت کی آخری دلیل تھی کہ کرائے میں اضافہ نا ہو مسافروں کی دقتیں نہ بڑھ نہ جائیں، تو یہ بھی پردہ ڈالنے والی بات تھی. ڈی جی سی اے کے مطابق پانچ مہینے میں جیٹ کے اگر 75 طیارے گراؤنڈ ہوئے تو 58 منسلک بھی ہوئے ہیں۔

جیٹ ایئر ویز کی سروسز بند ہونے کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر انتخابات کی سرگرمیوں کی وجہ سے لوگوں کی نظر کم پڑی ہے، اس دوران دو بڑی باتیں سامنے آئیں، جس کا نچوڑ یہ ہے کیا کہیں یہ سرمای داری کا کھیل تو نہیں چل رہا ہے؟

سینئر بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے شہری ہوا بازی کے وزیر سریش پربھو کو اس تعلق سے خط لکھا تھا اور بعد میں ٹویٹ کر نریندر مودی کو آگاہ کیا تھاکہ آپ کے دو وزرا اسپائس جیٹ کو جیٹ ایئر ویز کا کاروبار سونپ دینا چاہتے ہیں، یہ غلط ہو سکتا ہے، اس کے پیچھے کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے، آپ اسے روکیے،ورنہ بی جے پی کو انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

اسی دوران دوسری ہوائی کمپنیاں انڈیگو اور ٹاٹا وستارا نے حکومت کو ایک خط لکھا کہ جیٹ کے بند ہونے کے بعد جو سلاٹ خالی ہوئے ہیں اس کو جس طرح سے الاٹ کیا جا رہا ہے اس میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے، اس بارے میں جو 2003 کا جو قانون ہے اس کی بھی خلاف ورزی ہو رہا ہے۔

نریش گوئل کی کہانی تو ختم ہو گئی، دلیل یہ دی گئی کہ ایئر لائن کا دھندہ مہنگا ہو گیا تھا، ایندھن کے اخراجات کافی بڑھ گئے تھے، قرض بہت لے لیا تھا اور مہنگا آپریشن چلا رہے تھے، اب سمجھ میں آیا کہ وہ اس کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہے تھے بلکہ خود بچ کر نکلنا چاہ رہے تھے۔

دوسرے کردار کی بات کریں تو جیٹ میں پچاس فیصد سے زیادہ شیئر ایس بی آئی اور ایک سرکاری ادارے این آئی آئی ایف کے پاس ہے، اب یہاں قرض دینے والوں کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ اسے پہلے ہی پتہ تھا کہ پتہ تھا کہ ایئر لائن ڈوب رہی ہے، ایسی صورت میں یا تو آپ نریش گوئل سے شیئر فروخت کرواتے، اس سے پیسے وصول کرتے یا انہیں نکال باہر کرتے اور ایئر لائن کو بچاتے، لیکن ایس بی آئی نے وقت پر ایکشن نہیں لیا۔

جب بحران بڑھ گیا تو ایس بی آئی نے کہا کہ ہم نئے سرمایہ دار لائیں گے اور ضرورت پڑی تو 1000-1500 کروڑ ڈال بھی دیں گے، لیکن ایئر لائنز اس کی سكيوٹی کی گارنٹی دےگی تب ہی۔

لیکن ایس بی آئی کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس وجہ سے ہی ایئر لائن ڈوبی ہے اور اس کا بھی پیسہ ڈوبے گا۔

حکومت نے اس سے یہ لکھ کر نہیں کہا کہ آپ اس کمپنی کو بچائیے، اس کی قیمت نہ گر جائے اور 20 ہزار ملازمین اور ان کے خاندان کے رکن یعنی تقریبا ایک لاکھ لوگ مصیبت میں نہ پھنس جائیں اس کا کچھ اقدامات کیجیے، لہذا ایس بی آئی نے کچھ نہیں کیا، اس نے اپنی کردار نہیں ادا کیا اور جیٹ ایئر ویز بند ہو گئی۔

اسپائس جیٹ کے پاس بوئنگ ہیں، جیٹ کے پاس بھی بوئنگ تھا۔ تو اسپائس جیٹ کو کچھ سلاٹ ممبئی اور دہلی کے پرائیویٹ ایئر پورٹ آپریٹر نے دے دیے اور پالیسی میں یہ چینج کر دیا کہ اب سلاٹ انہیں ہی ملیں گے جن کے پاس نئے ہوائی جہاز ہوں گے۔

نئے ہوائی جہاز لانے میں نئی ایئر لائنز کو وقت درکار ہوتا ہے لیکن اس دوران اسپائس جیٹ نے گراؤنڈیڈ طیارے میں سے کچھ لے لئے اور کچھ ہوائی جہاز اور آنے تھے، اعلان کیا کہ اگلے دس دنوں میں ہم طیاروں کی تعداد میں اضافہ کر لیں گے اور بزنس کلاس بھی شروع کر دیں گے۔

اسپائس جیٹ کے پاس اب جیٹ کے بند ہوئی سلاٹ کا بڑا حصہ اور کاروبار جا رہا ہے، اس پر انڈیگو اور وستارا نے سخت اعتراض کیا، یہ خبر میڈیا میں شائع ہوئی اگرچہ نام نہیں لیا گیا لیکن اسپائس جیٹ پر ہی حملہ تھا، سب جگہ بحث ہو گئی، سبرامنیم سوامی نے تو نام ہی لیا۔

ابھی اسپائس جیٹ کے مالک اجے سنگھ پر آتے ہیں، وہ کون ہیں؟

اجے سنگھ ایک کامیاب تاجر ہیں، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم بیک گراؤنڈ ہے لیکن کافی وقت سے بی جے پی سے منسلک ہیں، یہ پرمود مہاجن کے ساتھ کام کرتے تھے، مارن نے جب اسپائس جیٹ کو خریدا اور یہ ڈوب گیا تو اجے سنگھ نے اسے خرید لیا اور اسے نئی زندگی دی، پچھلی بار یعنی 2014 میں 'اب کی بار مودی حکومت' کا نعرہ بھی اجے سنگھ کا ہی گڑھا ہوا تھا۔

وہ مسلسل بی جے پی کے ساتھ کام کرتے رہے، سوامی کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تعصب ہو رہا ہے، رول بیسڈ کام نہیں ہو رہا ہے، اسپائس جیٹ کی مسابقتی ایئر لائنز بھی یہی کر رہی ہیں۔

ہمیں یہ کہنا ہے کہ ابھی انتخابات کے کی بھاگ دوڑ میں مسافروں کو تکلیف نہ ہو، کرائے میں اضافہ نا ہو۔
لیکن حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم جیٹ سلاٹ دوسری ایئر لائنز کو دےیں گے، اس سے ہوائی سفر کا بحران کا حل نکل جائے گا، حکومت نے کہا کہ یہ نظام تین ماہ کا ہی ہے اور ہم بعد میں اسے ریویو کریں گے۔

لیکن ایک بار سلاٹ پر قبضہ ہو جانے پر آپ ایئر لائنز کو اچانک اس ہٹا نہیں سکتے ہیں، نئی ایئر لائنز کو سلاٹ دینے میں دشواریاں نظر آئیں اور کہا گیا کہ انہیں طیارے لیز پر نہیں ملیں گے ۔

ایسی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ٹیلی کام اور پاور سیکٹر کی طرح سول ایوی ایشن سیکٹر مسلسل بحران سے دوچار رہا، اس بحران کو اور بڑھا دیا گیا. سلاٹ دینے میں حکومت نے جو قدم اٹھایا اس تعصب کی بو آ رہی ہے، یہ بات ہم نہیں بلکہ سارے شیئر ہولڈر کہہ رہے ہیں۔

حکومت کو لگا کہ شاید انتخابات کے شور میں اس پر زیادہ بحث نہیں ہوگی، اس کے پہلے آئی ایل ایف ایس میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، آئی ایل ایف ایس نیم سرکاری کمپنی تھی۔

حکومت کی آخری دلیل تھی کہ کرائے میں اضافہ نا ہو مسافروں کی دقتیں نہ بڑھ نہ جائیں، تو یہ بھی پردہ ڈالنے والی بات تھی. ڈی جی سی اے کے مطابق پانچ مہینے میں جیٹ کے اگر 75 طیارے گراؤنڈ ہوئے تو 58 منسلک بھی ہوئے ہیں۔

Intro:Body:

news


Conclusion:
Last Updated : Apr 27, 2019, 11:54 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.