دھان کی کھیتی کے لیے بیج بونےکا موسم ہے لیکن ان کے کھیت خشک ہوچکے ہیں اور کھیتوں میں ہریالی کے بجائے بنجر زمین نظر آتی ہے۔
جون کا مہینہ ختم ہونے کو ہے لیکن علاقے میں ایک دو روز سوائے بوندا باندی ہونے کے بعد اب تک بارش کا نام و نشان نہیں ہے۔
بھاگلپور سے متصل گڈا ضلع کے قریب واقع یہ گیروا ندی کی ذیلی ندی ہے، جہاں عام دنوں میں بھی پانی بھرا رہتا تھا، مقامی لوگ اس پانی کا استعمال کھیتوں کی سینچائی کے لیے کرتے تھے لیکن گزشتہ سال کی طرح امسال بھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے ندی بالکل سوکھ چکی ہے اور کسان پریشان ہیں کہ دھان کی کھیتی آخر کیسے کی جائے؟
عام طور پر ان دنوں میں کھیتوں میں ہریالی ہوا کرتی تھی لیکن اس سال قحط سالی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
مرکزی حکومت نے کسانوں کو سالانہ 6000 روپئے دینے کا وعدہ کیا ہے اور کچھ جگہوں پر اس کی پہلی قسط بھی ملنے کی خبر آئی تھی لیکن یہاں کے کسانوں کو حکومت کا وہ پیسہ بھی نہیں ملا ہے۔
دیگر دیہی علاقوں کی طرح یہاں کے لوگوں کی معیشت بھی کھیتی پر منحصر ہے یہاں کے کسانوں کے لیے فصلوں کی سینچائی کا کوئی متبادل انتظام نہیں ہے۔ اگر بارش نہیں ہوئی تو علاقے میں قحط پڑ جائے گا جس سے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رواں برس بھی جس طرح بادلوں نے منہ پھیرا ہوا ہے تب سے لوگوں کو قحط سالی کا ڈر ستانے لگا ہے۔ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے والے حکومت کے سبھی دعوے اور وعدے یہاں کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔