اس مرتبہ عام انتخابات کے دوران پورے ملک کی نظریں بنگال پرمرکوزہے۔ بنگال کی 42 سیٹوں پرقبضے کی جنگ جاری ہے۔ حکمراں جماعت ترنمول کا نگریس پورے42 سیٹوں پر جیت درج کرنے کی کوشش میں ہے تودوسری طرف بی جے پی نے 42 میں سے23 سیٹیں حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگادیا ہے۔
اس مرتبہ کے انتخابات وزیراعظم نریندرمودی بمقابلہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی ہے۔ ممتابنرجی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کوریاست سے دوررکھنے کے لیے لڑرہی ہیں۔
مغربی بنگال کے ناقابل تسخیر قلعے کو فتح کر نے کے لیے زیراعظم نریندرمودی، بی جے پی کے قومی صدرامت شاہ، اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ بنگال متواتر بنگال کا دورہ کر رہے ہیں۔
مغر بی بنگال میں بائیں محاذاورکانگریس صرف نام اورجھنڈے تک ہی محدودہورکررہ گئیں ہیں ۔گزشتہ چند برسوں میں بی جے پی نےریاست کے سرحدی اضلاع میں اپنی موجودگی کا احساس دلایاہے۔
بنگال میں بی جے پی کی بڑتھی مقبولیت کی وجہ سے ترنمول کا نگریس کی سپریموکواورزیادہ محتاط ہوگئی ہیں۔
عددشمارکی باتیں کریں تواس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ گزشتہ 25 برسوں میں ترنمول کا نگریس مضبوط سیاسی پارٹی بن کرابھری ہے۔
1996میں آل انڈیاکانگریس پارٹی کے پاس 40 فیصد ووٹ تھے جبکہ ترنمول کا نگریس کے پاس محض10 فیصدووٹ تھے۔ لیکن2014 میں سب کچھ بدل گیا۔18 سال پہلے محض10 ووٹ حاصل کرنے والی ریاستی پارٹی ترنمول کا نگریس کے ووٹ فیصد میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس کا ووٹ فیصد40 تک پہنچ گیا، جبکہ کانگریس 10 فیصدتک پہنچ گئی۔
اس کے علاوہ ریاست میں بی جے پی کے ووٹ فیصد13 بڑھے جبکہ بائیں محاذ کو12 فیصد کا نقصان ہوا۔
عام انتخابات کے پہلے اوردوسرے مرحلے کی پولنگ میں حکمراں جماعت ترنمول کا نگریس کو تھوڑا نقصان کاسامناکرنا پڑاجبکہ بی جے پی کو فائدہ ہوا۔
کوچ بہار،علی پوردورا، جلپائی گوڑی، دارجلنگ بی جے پی کے شرح ووٹ میں 50 فیصد کا اضافہ ہو نے کا امکان ہے۔
سروے میں تیسرے مرحلے کی پولنگ میں ترنمول کانگریس کونقصان نے کی قیاس آرائی کی گئی ہے۔
چوتھے، پانچویں،چھٹے اورساتویں مرحلے کی پولنگ میں حکمراں جماعت ترنمول کا نگریس کادبدبہ رہنے کاامکان ہے۔ ایوزیشن پارٹیاں حکمراں جماعت کے بالکل قریب نہیں پہنچ سکتی۔
سروے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی کل آبادی14 فیصد ہے جبکہ مغربی بنگال میں ان کی آبادی 28 فیصدہے جو پورے ملک کے مقابلے دوگنی ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں ترنمول کانگریس کو مسلمانوں کے 40 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے، جبکہ بائیں محاذ کو 30،کانگریس کو20 اوردیگر پارٹیوں کو8 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے۔
مگر2019 کے عام انتخابات میں سب کچھ بدلتا ہوانظرآرہا ہے۔ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بجائے ایک جماعت کی جھولی میں جانے کی امید ہے۔
ممتابنرجی کی قیادت والی پارٹی کو70 فیصد ووٹ ملنے کاامکان ہے جبکہ کانگریس کو20 فیصداور بائیں محاذ کو5 فیصد ووٹ ملنے والے ہیں۔ سروے کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے لیے اس مرتبہ کوئی جگہ نہیں ہے۔
2014 میں ترنمول کانگریس 27 فیصد سیٹیں وہاں سے جیتی جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً20 سے زیادہ ہے۔
ماہرین کاکہناہے کہ اس مرتبہ کےعام انتخابات میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے زیادہ جارحانہ رویہ اختیارکررکھاہے جبکہ بی جے پی ہندوتوا نظریہ کے میں میدان میں ہے۔
سروے سے پتہ چلتاہے کہ ممتا بنرجی کی پارٹی شہراوراس کے اطراف میں کافی مضبوط ہے جبکہ بھارت۔بنگلہ دیش سرحد سے متصل اضلاع میں بی جے پی ووٹرزکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہی ہے۔
18 سے 23 سال کی عمروالے نوجوان کابی جے پی کی طرف جھکاؤ ہے جبکہ33 سے50 سال کی عمر والے ووٹرزحکمراں جماعت ترنمول کانگریس کے ساتھ جاناپسند کرتے ہیں۔
بیربھوم، ہگلی، بیرکپور، بشیرہاٹ، الیبڑیا، دائمنڈ ہاربرتملک اورمتھراپور ایسی پارلیمانی سیٹیں ہیں جہاں کسی کی بادشاہت نہیں رہی ہے۔ یہاں کے عوام ہر پانچ سال میں اپنے نمائندے کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
آسنسول پارلیمانی حلقہ ہائی پروفائل امیدواربابل سپریواورمن من سین کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔
عام انتخابات اور بنگال کے مسلمان - سیاسی پارٹیوں
عام انتخابات2019 میں سب کچھ بدلتا ہوانظرآرہا ہے، مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بجائے ایک جماعت کی جھولی میں جانے کی امید ہے۔
اس مرتبہ عام انتخابات کے دوران پورے ملک کی نظریں بنگال پرمرکوزہے۔ بنگال کی 42 سیٹوں پرقبضے کی جنگ جاری ہے۔ حکمراں جماعت ترنمول کا نگریس پورے42 سیٹوں پر جیت درج کرنے کی کوشش میں ہے تودوسری طرف بی جے پی نے 42 میں سے23 سیٹیں حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگادیا ہے۔
اس مرتبہ کے انتخابات وزیراعظم نریندرمودی بمقابلہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی ہے۔ ممتابنرجی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کوریاست سے دوررکھنے کے لیے لڑرہی ہیں۔
مغربی بنگال کے ناقابل تسخیر قلعے کو فتح کر نے کے لیے زیراعظم نریندرمودی، بی جے پی کے قومی صدرامت شاہ، اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ بنگال متواتر بنگال کا دورہ کر رہے ہیں۔
مغر بی بنگال میں بائیں محاذاورکانگریس صرف نام اورجھنڈے تک ہی محدودہورکررہ گئیں ہیں ۔گزشتہ چند برسوں میں بی جے پی نےریاست کے سرحدی اضلاع میں اپنی موجودگی کا احساس دلایاہے۔
بنگال میں بی جے پی کی بڑتھی مقبولیت کی وجہ سے ترنمول کا نگریس کی سپریموکواورزیادہ محتاط ہوگئی ہیں۔
عددشمارکی باتیں کریں تواس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ گزشتہ 25 برسوں میں ترنمول کا نگریس مضبوط سیاسی پارٹی بن کرابھری ہے۔
1996میں آل انڈیاکانگریس پارٹی کے پاس 40 فیصد ووٹ تھے جبکہ ترنمول کا نگریس کے پاس محض10 فیصدووٹ تھے۔ لیکن2014 میں سب کچھ بدل گیا۔18 سال پہلے محض10 ووٹ حاصل کرنے والی ریاستی پارٹی ترنمول کا نگریس کے ووٹ فیصد میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس کا ووٹ فیصد40 تک پہنچ گیا، جبکہ کانگریس 10 فیصدتک پہنچ گئی۔
اس کے علاوہ ریاست میں بی جے پی کے ووٹ فیصد13 بڑھے جبکہ بائیں محاذ کو12 فیصد کا نقصان ہوا۔
عام انتخابات کے پہلے اوردوسرے مرحلے کی پولنگ میں حکمراں جماعت ترنمول کا نگریس کو تھوڑا نقصان کاسامناکرنا پڑاجبکہ بی جے پی کو فائدہ ہوا۔
کوچ بہار،علی پوردورا، جلپائی گوڑی، دارجلنگ بی جے پی کے شرح ووٹ میں 50 فیصد کا اضافہ ہو نے کا امکان ہے۔
سروے میں تیسرے مرحلے کی پولنگ میں ترنمول کانگریس کونقصان نے کی قیاس آرائی کی گئی ہے۔
چوتھے، پانچویں،چھٹے اورساتویں مرحلے کی پولنگ میں حکمراں جماعت ترنمول کا نگریس کادبدبہ رہنے کاامکان ہے۔ ایوزیشن پارٹیاں حکمراں جماعت کے بالکل قریب نہیں پہنچ سکتی۔
سروے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی کل آبادی14 فیصد ہے جبکہ مغربی بنگال میں ان کی آبادی 28 فیصدہے جو پورے ملک کے مقابلے دوگنی ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں ترنمول کانگریس کو مسلمانوں کے 40 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے، جبکہ بائیں محاذ کو 30،کانگریس کو20 اوردیگر پارٹیوں کو8 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے۔
مگر2019 کے عام انتخابات میں سب کچھ بدلتا ہوانظرآرہا ہے۔ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بجائے ایک جماعت کی جھولی میں جانے کی امید ہے۔
ممتابنرجی کی قیادت والی پارٹی کو70 فیصد ووٹ ملنے کاامکان ہے جبکہ کانگریس کو20 فیصداور بائیں محاذ کو5 فیصد ووٹ ملنے والے ہیں۔ سروے کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے لیے اس مرتبہ کوئی جگہ نہیں ہے۔
2014 میں ترنمول کانگریس 27 فیصد سیٹیں وہاں سے جیتی جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً20 سے زیادہ ہے۔
ماہرین کاکہناہے کہ اس مرتبہ کےعام انتخابات میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے زیادہ جارحانہ رویہ اختیارکررکھاہے جبکہ بی جے پی ہندوتوا نظریہ کے میں میدان میں ہے۔
سروے سے پتہ چلتاہے کہ ممتا بنرجی کی پارٹی شہراوراس کے اطراف میں کافی مضبوط ہے جبکہ بھارت۔بنگلہ دیش سرحد سے متصل اضلاع میں بی جے پی ووٹرزکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہی ہے۔
18 سے 23 سال کی عمروالے نوجوان کابی جے پی کی طرف جھکاؤ ہے جبکہ33 سے50 سال کی عمر والے ووٹرزحکمراں جماعت ترنمول کانگریس کے ساتھ جاناپسند کرتے ہیں۔
بیربھوم، ہگلی، بیرکپور، بشیرہاٹ، الیبڑیا، دائمنڈ ہاربرتملک اورمتھراپور ایسی پارلیمانی سیٹیں ہیں جہاں کسی کی بادشاہت نہیں رہی ہے۔ یہاں کے عوام ہر پانچ سال میں اپنے نمائندے کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
آسنسول پارلیمانی حلقہ ہائی پروفائل امیدواربابل سپریواورمن من سین کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔
news
Conclusion: