ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ان مذاکرات میں خاص طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان کی طرف سے اس بات کی گارنٹی دیئے جانے پر توجہ رہے گی کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغان سرزمین کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر نہیں استعمال کیا جائے گا۔ خلیل زاد قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ اس بارے میں ایک ابتدائی معاہدے کا ڈرافٹ تیار کیا جا چکا ہے۔
زلمے خلیل زاد جو منگل 30 اپریل کو اسلام آباد میں تھے، علاقے کے مختلف ممالک کے دورے پر تھے جس کا مقصد افغان حکومت اور اس کے ہمسایوں کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے ایک پر امن حل پر سب کو متفق کیا جا سکے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق خلیل زاد اس ملاقات میں امریکی نمائندوں کی اس ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں جو گزشتہ برس اکتوبر سے اب تک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے کئی ادوار میں شریک رہے ہیں۔
خلیل زاد کے ساتھ کام کرنے والے ایک اہلکار نے رائٹر کو بتایا کہ مذاکرات کے تازہ دور میں طالبان کو ایک بار پھر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں۔ طالبان اب تک افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو ایک کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
امریکہ- طالبان مذاکرات کا چھٹا دور آج سے شروع - چھٹا دور
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو آج بتایا کہ یہ مذاکرات گزشتہ برس زلمے خلیل زاد کو امریکی نمائندہ خصوصی مقرر کئے جانے کے بعد سے ان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا چھٹا دور ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ان مذاکرات میں خاص طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان کی طرف سے اس بات کی گارنٹی دیئے جانے پر توجہ رہے گی کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغان سرزمین کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر نہیں استعمال کیا جائے گا۔ خلیل زاد قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ اس بارے میں ایک ابتدائی معاہدے کا ڈرافٹ تیار کیا جا چکا ہے۔
زلمے خلیل زاد جو منگل 30 اپریل کو اسلام آباد میں تھے، علاقے کے مختلف ممالک کے دورے پر تھے جس کا مقصد افغان حکومت اور اس کے ہمسایوں کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے ایک پر امن حل پر سب کو متفق کیا جا سکے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق خلیل زاد اس ملاقات میں امریکی نمائندوں کی اس ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں جو گزشتہ برس اکتوبر سے اب تک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے کئی ادوار میں شریک رہے ہیں۔
خلیل زاد کے ساتھ کام کرنے والے ایک اہلکار نے رائٹر کو بتایا کہ مذاکرات کے تازہ دور میں طالبان کو ایک بار پھر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں۔ طالبان اب تک افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو ایک کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
salman
Conclusion: